شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدر ایرسن تاتار نے کہا ہے کہ مسئلہ قبرص پر سرکاری مذاکرات قبرصی ترک فریق کی خودمختاری اور بین الاقوامی حیثیت کو تسلیم کیے بغیر دوبارہ شروع نہیں ہوں گے۔
امریکہ کے شہر نیو یارک میں منعقدہ دو روزہ غیر سرکاری اجلاس اختتام پذیر ہو گیا ہے۔
اجلاس، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کی میزبانی میں منعقد ہوا اور اس میں شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدر ایرسن تاتار، جنوبی قبرص کے رہنما نیکوس کرسٹوڈولیدیس نے شرکت کی۔
اجلاس میں ضامن ممالک کی نمائندگی ترکیہ کے وزیر خارجہ حاقان فیدان، یونان کے وزیر خارجہ یورگو گیریپیٹریس اور برطانیہ کے وزیر اعلیٰ اسٹیفن ڈاؤٹی نے کی ۔
اجلاس کے بعدمنعقدہ پریس کانفرنس میں ایرسن تاتار نے کہا ہے کہ "جب تک قبرصی ترک فریق کی خودمختاری اور مساوی بین الاقوامی حیثیت کی تصدیق نہیں ہو جاتی، ہم سرکاری مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کریں گے۔"
ایرسن تاتار نے کہا ہے کہ فریقین نے ستمبر اور سال کے آخر میں دوبارہ ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
تاتار نے مزید کہا ہےکہ"ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری خودمختاری ، مساوی حیثیت اور بین الاقوامی حیثیت ہمارے قدرتی حقوق ہیں۔ ہم مثبت، تعمیری، اور مستقبل کی طرف دیکھنے والے ایجنڈے کے ساتھ اجلاس میں آئے ہیں"۔ انہوں نے مارچ میں جنیوا میں منعقدہ غیر سرکاری اجلاس کے بعد جزیرے پر پیش آنے والے واقعات پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
تاتار نے کہا ہے کہ یونانی انتظامیہ کے اقدامات نے قبرصی ترکوں کو تشویش، دباؤ، اور بڑھتی ہوئی دھمکیوں کا شکار بنا دیا ہے۔ بہت سے ترک جب جنوبی قبرص جاتے ہیں یا بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو گرفتاری یا حراست کے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پچھلے چھ سالوں سے قبرص میں دو ریاستیں اور دوحکومتیں موجود ہیں جو ترک اور یونانی عوام کی خواہشات کی عکاسی کرتی ہیں۔"
تاتار نے کہا ہے کہ "اگر کوئی نیا اور سرکاری مذاکراتی عمل شروع ہوتاہے تو اسے زمینی حقائق پر مبنی ہونا چاہیے اور اس عمل میں دونوں فریقین کو مساوی، منصفانہ اور باعزت طریقے سے شامل کرنا چاہیے۔"
تاتار نے کہا ہےکہ اجلاس کے بعد ہم، چار سرحدی چوکیاں کھولے جانے کا اعلان کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا جس پر ہمیں سخت افسوس ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یونانی فریق بفر زون کو عسکری مقاصد اور دیگر زمینی مسائل کے لئے ایک سرحدی چوکی بنانے پر مُصر تھا جو ترک فریق کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس اس معاملے میں پیش رفت کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن یونانی فریق کے رویے کی وجہ سے اس "سادہ مسئلے" کو حل نہیں کیا جا سکا۔
اناطولیہ ایجنسی کی طرف سے پوچھے گئے اور بارودی سرنگوں کی صفائی سے متعلق سوال کے جواب میں تاتار نے کہا ہے کہ "ہمارا مقصد جزیرے کو بارودی سرنگوں سے مکمل طور پر صاف کرنا ہے۔"
انہوں نے بتایا ہےکہ مسئلہ اس بات پر ہے کہ یونانی فریق صرف مخصوص علاقوں کوبارودی سرنگوں سے پاک کرنے کا خواہاں ہے اور کچھ علاقوں کو ہاتھ لگانے سے انکار کررہا ہے۔ اس وقت ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہر جگہ کو مکمل طور پر بارودی سرنگوں سے پاک کیا جائے۔"
واضح رہے کہ جزیرہ قبرص، اقوام متحدہ کی جامع حل کی کوششوں کے باوجود، برسوں سے یونانیوں اور ترکوں کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔
1960 کی دہائی کے آغاز میں نسلی حملوں کی وجہ سے جزیرے کی ترک آبادی اپنی حفاظت کی خاطر زیرِ محاصرہ علاقوں میں جانے پر مجبور ہو گئی۔
1974 میں یونان کی جانب سے جزیرے کے الحاق کی خاطر فوجی بغاوت کی گئی۔
ترکیہ نے بحیثیت ضامن طاقت کے اس بغاوت میں مداخلت کی جس کا مقصد جزیرے کی ترک آبادی کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔
نتیجتاً، 1983 میں شمالی قبرصی ترک جمہوریہ قائم کی گئی۔
حالیہ برسوں میں ترکیہ، یونان اور برطانیہ کی زیرِ ضمانت،2017 میں سوئٹزرلینڈ میں ناکامی پر ختم ہونے والی کوشش سمیت ،' امن مرحلہ 'وقتاً فوقتاً ایجنڈے پر آتا رہا ہے۔
یونانی انتظامیہ نے 2004 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی اور اسی سال اقوام متحدہ کےمسئلہ قبرص کو حل کرنے کے منصوبے کو یکطرفہ طور پر روک دیا۔