1947 میں جب جمّوں کی سرزمین پر خون کی ندیاں بہیں تو تشدد کی ایک لہر نے اس علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کر دیا۔تشدّد کی اس لہر میں پانچ لاکھ سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور بے شمار لوگ بے گھر ہو گئے۔ اسی دور میں فلسطین کے قدیم زیتون کے باغات نے بھی 1948 کے نکبہ کے ساتھ اپنی جدائی کی کہانیاں رقم کرنا شروع کیں۔
یہ دو جغرافیے۔۔۔۔کشمیر اور فلسطین۔۔۔۔ جلاوطنی اور مزاحمت کی مستقل علامتیں بن گئے۔ دونوں علاقے، جبری جلاوطنی، انکار، آبادیاتی انجینئرنگ اور قانونی مِٹاو جیسی، مشترکہ تقدیر کی وجہ سے ایک دوسرے سے منسلک ہو گئے۔
7 مئی 2025 کو، بھارت نے ، بشمول آزادکشمیر، پاکستان کے تین علاقوں پر میزائل حملے کیےجن کے نتیجے میں شہری اموات ہوئیں۔ یہ حملہ پہلگام میں سیاحوں کے قتل کے الزامات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے غیر مصدقہ دعووں کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کشمیر کا حل طلب تنازعہ ، جس کی وجہ سے دونوں ممالک اس علاقے پر پہلے ہی تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں، خطے کو مکمل جنگ کے دہانے پر لے جا رہا ہے ۔
آبادیاتی تشّدد
ستر سال سے زیادہ عرصے کے بعد، آبادکاری استعماریت مشینری اب قانونی زبان کے پردے میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی محدود خودمختاری ختم کر دی اور خاموشی سے ایک ایسا قانونی ڈھانچہ نافذ کیا جو کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے بجائے ان کے تشخّص کی تحلیل کے لیے بنایا گیا تھا۔
اپریل 2025 میں، اپوزیشن رہنماؤں کے سوال کے جواب میں، جموں و کشمیر کے ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے انکشاف کیا تھا کہ صرف دو سال کے اندر 84,000 سے زائد غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ اسیے افراد تھے جن کا پہلے سے کشمیر میں رہائش کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ خاص طور پر، یہ کہا گیا تھا کہ ریاستی باشندوں کی اصطلاح اب جموں و کشمیر کے آئین میں دی گئی سابقہ تعریف کے مطابق نہیں ہے۔
جموں و کشمیر کے آئین کے تحت، بھارت کا شہری دو شرائط میں ریاست کا مستقل باشندہ سمجھا جاتا تھا ۔پہلی یہ کہ وہ 14 مئی 1954 میں I کلاس یا IIکلاس کا ریاستی باشندہ رہا ہو، اس نے ریاست میں غیر منقولہ جائیداد قانونی طور پر حاصل کی ہو اور وہ اس تاریخ سے قبل کم از کم دس سال تک ریاست کا مستقل رہائشی رہا ہو یا پھر پعد میں آزاد کشمیر میں ہجرت کر گیا ہو لیکن آئینی اسمبلی کی طرف سے جاری کئے قانون کے تحت واپس لوٹ آیا ہو۔
یہ محض انتظامی اصلاحات نہیں ہیں بلکہ یہ قانونی جنگ ہے۔ یہ، مقامی انتظامیہ کو اداراتی شکل دینے،علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے اور مقامی خودمختاری کو ختم کرنے کے لئے داخلی قانون کا اسٹریٹجک شکل میں استعمال کرنا ہے۔
یہ منصوبہ ان قانونی تکنیکوں کی نقل کرتا ہے جو اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں طویل عرصے سے استعمال کر رکھی ہیں مثلاً زمین کی ضبطی کو قانونی حیثیت دینا، آبادکاروں کے حقوق میں اضافہ کرنا، اور انتظام کے پردے میں مقامی تحفظات کو ختم کرنا۔
ریاست کے شہریوں سے لے کر آبادکاروں تک
جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اصول و ضوابط ، 2020میں بھارت کے ملک گیر کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران متعارف کرائے گئے۔ ان اصول و ضوابط میں ڈومیسائل کی اہلیت کی تعریف کو اس علاقے میں رہائش پذیر، یہاں سے تعلیم یافتہ یا پھر یہاں ملازم افراد کا احاطہ کرنے کی شکل میں ازسرِ نو شکل دی گئی۔ ڈومیسائل قانون کی شرائط میں اس وسعت نے باہر سے آنے والے آبادکاروں کے لئے قانونی حلقے کو خاموشی سے بڑا کر دیا گیا ۔ صوبہ بہار سے ایک بھارتی سرکاری ملازم اس ڈومیسائل کو حاصل کرنے والے اوّلین افراد میں سے ایک تھا۔ یہ قدم علامتی بھی تھا اور اسٹریٹجک بھی۔
یہ قانونی چال ، مشرقی یروشلم میں جاری اسرائیلی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے، جہاں اسرائیل نے اپنی شہریت کے قوانین نافذ کیے اور 1925 کے فلسطینی شہریت آرڈر کو منسوخ کر دیا ہے۔
یہ حکمت عملیاں، جو بین الاقوامی عدالت انصاف اور چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزیوں کے طور پر بارہا مذمت کا نشانہ بنی ہیں، غیر معمولی نہیں بلکہ نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے ان ہتھکنڈوں کی بار بار مذمت کی گئی ہے اور یہ چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم، یہ بے قاعدگیاں نہیں ہیں۔ وہ قانونی سانچے ہیں جو آباد کاری پلے بک میں شامل ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے باہمی گرم جوش ذاتی تعلقات سے بھارت اور اسرائیل کے درمیان نظریاتی اور تزویراتی ہم آہنگی کو تقویت ملی ہے۔ ان رہنماؤں کے درمیان نہ صرف دوستی ہے بلکہ بالادستی کا سیاسی ماڈل، ڈیجیٹل نگرانی اور مقامی آبادیوں پر فوجی کنٹرول بھی ایک جیسا ہے۔
اسرائیل کی طرح بھارت بھی بین الاقوامی قانونی اصولوں اور نگرانی سے لاتعلق رہا ہے۔ جبکہ اسرائیل امریکہ کی ویٹو طاقت اور استثناء پسندی کے پیچھے اپنی آباد کار ی توسیع کو چھپاتا ہے۔ بھارت عالمی تنقید کو خاموش کرنے کے لئے اپنے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ اور جغرافیائی سیاسی شراکت داری کو ہتھیار بنا رہا ہے۔ دونوں ریاستیں خودمختاری کو ذمہ داری کے بجائےبطور استثنائی ہتھکنڈے کے استعمال کرتی ہیں اور قوم پرستی کی بنیاد پر بین الاقوامی انسانی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی منظم خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالتی ہیں۔
خود مختاری کو احتساب سے الگ تھلگ قرار دے کر وہ بین الاقوامی قانون کی بنیادی تجویز یعنی " مقامی اور زیرِ قبضہ لوگوں کے حقوق قابض طاقتوں کے عزائم کے تابع نہیں ہیں" کو مسترد کرتے ہیں۔
روز مرہ زندگی کو عسکری بنانا
لیکن صرف قوانین لوگوں کو فتح نہیں کر سکتے۔ انہیں خوف کے ساتھ ان قوانین کو نافذ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کو نام نہاد جمہوریت میں اب تک کے طویل ترین مواصلاتی بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ انٹرنیٹ کی بندش، میڈیا پر پابندی اور نقل و حرکت پر پابندی نے عوامی زندگی کو مفلوج کر دیا۔ مزاحمت کی قیمت کو عسکریت پسندی کے خلاف بغاوت کے ذریعے جرم قرار دیا گیا۔ مخالفین کو غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ جیسے جابرانہ قوانین کے تحت قید کیا گیا تھا ، اکثر بغیر کسی مقدمے کے۔ وکلاء، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور یہاں تک کہ غمزدہ خاندانوں کو نگرانی میں رکھا گیا۔ انہیں گرفتار کیا گیا یا خاموش کر دیا گیا۔ کشمیر میں شہری املاک کو ضبط کر لیا گیا ہے یا ان پر مہر لگا دی گئی ہے، زمین ضبط کر لی گئی ہے، اور اختلاف رائے کے ملزموں کے گھروں کو بے رحمی کے ساتھ مسمار کر دیا گیا ہے۔ جنازوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، سوشل میڈیا بیانات کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اکثر بغیر کسی الزام کے سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
یہ انتظام نہیں ہے۔ یہ مزاحمت کی بیخ کنی کی پالیسی اور بذریعہ قانون دی جانے والی اجتماعی سزا کی ایک قسم ہے۔
نوآبادیاتی استعمار یت کی آڑ میں
کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ داخلی پالیسی میں تبدیلی یا سیکورٹی اصلاحات نہیں ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ تنازعے کو آبادیاتی حل میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ ایک نوآبادیاتی استعمار ہے جو قومی یکجہتی اور قانونی ترقی کے بیانیے میں لپٹا ہوا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی عمل واضح ہے۔ چوتھا جنیوا کنونشن ایک قابض طاقت کو اپنی شہری آبادی کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرنے سے روکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں خاص طور پر قرارداد 47 کشمیر کی متنازع حیثیت کی توثیق کرتی ہیں اور حق خودارادیت کے لیے استصواب رائے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
بھارت کے اقدامات نہ صرف ان ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی ساختیاتی نااہلی کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان حکومتوں پر لگام لگانے میں ناکام ہیں جو قانونی حیثیت میں ہیرا پھیری کرکے بالادستی کو پکا کرنا چاہتی ہیں۔
قانونی جنگ یا انصاف؟
یہاں قانون غیر جانبدار نہیں ہے۔ اس کا استعمال آباد کار اور مقامی کے درمیان لکیر کو دھندلا کرنے اور "کشمیری ریاستی شہری" کے زمرے کو مکمل طور پر مٹانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جہاں کبھی قانون رجسٹرڈ ہوا کرتا تھا، وہاں اب اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ گمشدگی کا قانون ہے جو لاشوں کو قتل نہیں کرتا بلکہ سیاسی شناخت کو تباہ کرتا ہے۔
یہ صرف قانونی خلاف ورزیاں نہیں ہیں بلکہ ملّی حافظے، تعلق اور مقامی شناخت پر علمیاتی حملے ہیں۔ بھارت میں اس تبدیلی کو بیوروکریسی کی ترقی کے طور پرباعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم کشمیریوں کے لیے اس کا مطلب آبادیاتی استعماریت تبدیلی ہے جو نہ صرف حکمت عملی بلکہ قانونی منطق میں بھی اسرائیلی قبضے کی عکاسی کرتی ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ آیا یہ اقدامات قانونی ہیں یا نہیں۔ کیا قانون ان ریاستوں کو لگام ڈال سکتا ہے یا نہیں جو مہارت سے الفاظ کا استعمال کرتی ہیں۔ یا پھر اب قانونی حیثیت صرف غلبہ حاصل کرنے کا ایک آلہ ہے؟
جیسا کہ نوآبادیات دشمن مفکر 'فرانٹز فینن' نے متنبہ کیا ہے کہ آباد کار قوانین لکھنا جانتے ہیں جبکہ بے گھر افراد جلاوطنی کی تاریخ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ فلسطین میں ہے کشمیر میں ہے یا پھر قانونی تشدد کے دیگر اسٹیجوں پر ہے۔ دنیا کو ایک آبادیاتی دستاویز کے ساتھ ایک پھر یہ سوال اٹھانا ہوگا کہ استعماری طاقتوں کا آئین مقامی لوگوں کو جبری ہجرت کروانے ، بے دخل کرنے اور تباہ کرنے کے لیے کیسے استعمال کیا جا رہا ہے۔