ابیل-مونا نے انادولو ایجنسی سے گفتگو میں کہا کہ شام میں خونریزی کو روکنے کا واحد مؤثر راستہ، شام کی قیادت میں جامع مکالمے کا آغاز ہے۔
انہوں نے کہا:
"سویدا میں اور مجموعی طور پر شام میں مزید خونریزی اور تقسیم کو روکنے کا واحد حقیقت پسندانہ راستہ مکالمہ ہے۔"
ابیل-مونا نے واضح کیا کہ علاقائی طاقتوں کی مؤثر حمایت کے بغیر مقامی جنگ بندی کے معاہدے نازک اور غیر مستحکم رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا:
"سویدا میں حالیہ معاہدہ ایک مثبت قدم تھا، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے عرب اور ترک ضمانتوں کی ضرورت ہے، کیونکہ ریاست اور مقامی گروہوں کے درمیانسنگین عدم اعتماد موجود ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ 13 جون کو بدوی عرب قبائل اور مسلح دروز گروہوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپیں اس وقت شدت اختیار کر گئیں جب دُرزی جنگجوؤں نے شامی حکومت کی افواج پر حملہ کیا، جس کے بعد اسرائیل نے شامی فوج پر فضائی حملے کیے۔
ابیل-مونا کے مطابق، جنگ بندی کے مختصر عرصے بعد اس کا خاتمہ ہو گیا اور"اسرائیل نے اس سکیورٹی خلا سے فائدہ اٹھایا۔ سویدا کی صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ وہ اس خلا کو استعمال کرتے ہوئے برادریوں کو تقسیم کرنے اور انہیں بیرونی تحفظ کی تلاش پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
انہوں نے لبنان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پھیلنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا:
"اس فتنہ کو لبنان منتقل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو ملک کے اندر نازک توازن کو بگاڑ سکتی ہیں۔"
ابیل-مونا نے بتایا کہ وہ دارالافتاء اور دیگر مذہبی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور تفرقہ انگیز بیانیے کے خلاف مشترکہ موقف اپنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر زور دیا کہ"سویدا میں حالیہ معاہدہ ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کو پائیدار بنانے کے لیے عرب اور ترک ضمانتوں کی اشد ضرورت ہے۔ نئی شامی ریاست اب تک اپنے عوام کے ساتھ ایک حقیقی رشتہ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔"
ترکیہ کا کردار انتہائی اہم ہے
"ترکیہ، سیاسی عمل کو بحال کرنے اور جامع مکالموں کی قیادت کرنے کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ سویدا میں جاری جھڑپیں ملک کو تقسیم کی طرف لے جا رہی ہیں، لیکن شامی دُرزی کے روحانی رہنما ایک متحد وطن اور یکجہتی پر مبنی قوم کے خواہاں ہیں۔"