فلسطینی نژاد امریکی صحافی علی ابو نعیمہ نے تصدیق کی ہے کہ سوئس حکام نے انہیں تین دن تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر کے ملک بدر کر دیا۔
الیکٹرانک انتفاضہ نامی آزاد آن لائن اشاعت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ابو نعیمہ نے پیر کے روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ انہیں زیورخ میں ایک طے شدہ تقریری پروگرام سے پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنی ملک بدری کے عمل کو بیان کرتے ہوئے کہا:"پیر کی شام، پولیس کی نگرانی میں مجھے ایک چھوٹی سی دھاتی پنجرے والی، کھڑکیوں کے بغیر جیل وین میں ہتھکڑی لگا کر زیورخ ہوائی اڈے لے جایا گیا اور وہاں سے مجھے جہاز تک لے جایا گیا۔"
عینی شاہدین کے مطابق:"تین سادہ لباس پولیس اہلکاروں نے ابو نعیمہ کو زبردستی گرفتار کیا اور یہ بتائے بغیر کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے، انہیں ایک بغیر نشان والی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔"
نوآبادیاتی بربریت
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے ابو نعیمہ کی گرفتاری کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
اقوام متحدہ کی سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملات کی خصوصی نمائندہ آئرین خان نے اس گرفتاری کو "حیران کن خبر" قرار دیتے ہوئے سوئٹزرلینڈ سے "فوری تحقیقات اور رہائی" کا مطالبہ کیا۔
جنیوا میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم یورو-میڈ مانیٹر نے بھی اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ "مغربی حکومتوں میں آزادی اظہار پر سنسر شپ عائد کرنے اور فلسطینی حقوق کے لیے کام کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرنے والی ایک خطرناک پیشرفت" ہے۔
ابو نعیمہ نے کہا کہ ان کا واحد "جرم" ایک ایسا صحافی ہونا ہے جو فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتا ہے اور اسرائیل کی نسل کشی، نوآبادیاتی ظلم و ستم اور ان کے حامیوں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔
بڑھتا ہوا ردعمل
استنبول ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد، صحافی نے سوئٹزرلینڈ میں اپنی حراست اور ملک بدری کے تجربے کو ایکس پر شیئر کیا۔
انہوں نے لکھا:"میں آزاد ہوں! میں یہ پوسٹ ہوائی جہاز میں لکھ رہا تھا اور استنبول میں اترتے ہی شیئر کر رہا ہوں۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں "سوئس قوانین کی خلاف ورزی" کا مرتکب قرار دیا گیا، حالانکہ ان پر کوئی باضابطہ الزام عائد نہیں کیا گیا۔
الیکٹرانک انتفاضہ (EI) نے اس گرفتاری کو "مغربی حکومتوں کی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی پر بڑھتے ہوئے جبر" کے طور پر بیان کیا۔ EI نے نشاندہی کی کہ گزشتہ سال برطانیہ میں کئی کارکنوں اور صحافیوں کو "دہشت گردی مخالف قوانین" کا استعمال کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا، ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور الزامات عائد کیے گئے۔
ان افراد میں EI کے معاون ایڈیٹر آسا ونسٹنلے بھی شامل تھے، جن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، کمپیوٹر اور فون ضبط کر لیے گئے۔
ابو نعیمہ نے یہ بھی بتایا کہ انہیں سوئس وزارت دفاع کے ماتحت انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکاروں نے بھی پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انہیں "سڑک سے اغوا کیا گیا، ہتھکڑیاں لگائی گئیں، ایک گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا اور سیدھا جیل لے جایا گیا۔"
انہوں نے مزید کہا:
"میں سوئٹزرلینڈ آیا تھا کیونکہ مجھے سوئس شہریوں نے دعوت دی تھی کہ میں فلسطین کے لیے انصاف پر بات کروں اور اس نسل کشی کے لیے احتساب کا مطالبہ کروں جس میں سوئٹزرلینڈ بھی شریک جرم ہے۔"
فلسطینی صحافی نے اس بات کی مذمت کی کہ جب اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ، جنہوں نے غزہ میں معصوم شہریوں کے وجود سے انکار کیا تھا، ڈیوس میں سرخ قالین پر ان کا استقبال ہو رہا تھا، تب حقیقت بیان کرنے والے ایک صحافی کو مجرم کی طرح پیش کیا جا رہا تھا۔
ابو نعیمہ نے اپنے بیان کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا:"نہر سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا!"