تین ماہ کا شیر خوار ' یحییٰ النجار 'غزہ کے ایک اسپتال میں انتقال کر گیا ہے۔
یحییٰ نجار کو چار دن تک دودھ نہیں مِلا اور وہ صرف سونف کی چائے پر زندہ رہا۔ اس کی موت زیرِ محاصرہ غزّہ کے ہزاروں بچوں کو درپیش بھوک کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
یحییٰ کے والدین نے بتایا کہ انہوں نے دودھ اور دلیہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں کچھ نہ یں ملا۔وہ اپنے بچے کو زندہ رکھنے کے لیے صرف سونف کی چائے پلاتے رہے۔
جلد ہی یحییٰ کے کمزور جسم پر شدید غذائی قلت کے آثار ظاہر ہونے لگے اس کاپیٹ کا پھولنا اور پسلیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔ اسے فوری طور پر انتہائی نگہداشت میں داخل کیا گیا جہاں ہفتے کی رات وہ بھوک کے باعث انتقال کر گیا۔
غزہ وزارت صحت نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی نے اکتوبر 2023 سے انسانی امداد کی علاقے تک رسائی کو محدود کر رکھا ہے۔خوراک کی قلّت کے باعث 86 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 76 بچے ہیں ۔
وزارت نے اس صورتحال کو ایک 'خاموش قتل عام' قرار دیا اور کہا ہے کہ صرف 24 گھنٹوں میں 18 افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے ہیں ۔
سونف کی چائے دودھ کے متبادل کے طور پر
یحییٰ کی ماں نے اتوار کو بتایا کہ دودھ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بچے نے اپنے آخری چار دن صرف پانی اور سونف کی چائے پی کر گزارے ۔
اس نے روتے ہوئے اپنے بچے کی حالت بیان کی اور کہا کہ'وہ ہر وقت اپنا ہاتھ چوستا رہتا تھا' ۔
ماں نے کہا کہ جب وہ اسے اسپتال لے کر گئی تو ڈاکٹروں نے اس میں غذائی قلت کی تشخیص کی جس میں اسہال اور پیٹ کا پھولنا شامل تھا۔ جلد ہی بچے کا بلڈ شوگر لیول گر گیا اور اس کی حالت تیزی سے بگڑتی چلی گئی۔
ڈاکٹروں نے خاندان کو بتایا کہ یحییٰ کو زندہ رہنے کے لیے فوری طور پر دودھ کی ضرورت ہے۔ لیکن 2 مارچ سے انسانی اور تجارتی سامان کی تمام گزرگاہیں بند ہونے کی وجہ سے، غزہ کی دکانوں سے دودھ غائب ہو چکا ہے۔
ماں نے مزید کہا کہ یحییٰ کو پہلے اسپتال میں داخل کیا گیا اور وہاں فراہم کردہ دودھ سے اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تھی۔ لیکن جب وہ سپلائی ختم ہو گئی تو اس کی حالت دوبارہ خراب ہو گئی۔
غذائی قلت سے موت
یحییٰ کے چچا'عنان النجار' نے بھی کہا کہ دودھ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بچہ پیدائش سے ہی پانی اور سونف کی چائے پر زندہ تھا ۔تین ماہ سے غزہ میں بچوں کا دودھ دستیاب نہیں ہے۔ اس بچے نے کیا قصور کیا تھا کہ وہ صرف اس لیے مر گیا کہ دودھ اس تک نہیں پہنچ سکا؟'
انہوں نے کہا کہ یحییٰ کو غذائی قلت کے علاوہ کوئی طبی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی ماں، جو خود بھی غذائی قلت کا شکار تھی، دودھ پلانے کے قابل نہیں تھی، اور کوئی متبادل دستیاب نہیں تھا۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر غزہ میں بچوں کے لئے دودھ کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ مزید اموات کو روکا جا سکے۔
یحییٰ کو اس کے باپ 'فادی النجار' نے سفید کفن میں لپیٹ کر قبر تک پہنچایا۔ اس کا چھوٹا سا جسم ان نئے کپڑوں سے محروم تھا جو عام طور پر نوزائیدہ بچوں کے لیے ہوتے ہیں۔ غم سے نڈھال باپ کچھ بول نہ سکا اور خاموشی سے اپنے بچے کو دفن کر دیا۔
حقوقی تنظیم: بھوک کی پالیسی جاری
یورو-میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر نے پیر کو کہا ہےکہ یحییٰ غزہ میں بھوک یا بچوں کے دودھ کی عدم دستیابی کے باعث مرنے والا 75واں بچہ تھا۔
تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں بچے کے کمزور جسم کو دکھایا گیا، جس میں پیٹ پھولا ہوا اور ہڈیاں نمایاں تھیں۔ ویڈیو میں کہا گیا ہےکہ یحییٰ کی موت اسرائیل کی غزہ کے 2.4 ملین باشندوں کے خلاف 'ارادی بھوک پالیسی' کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔
تنظیم نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ یحییٰ سے پہلے ایک اور صرف 35 روزہ بچہ انہی حالات کے باعث انتقال کر چُکا ہے۔
تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک یہ بھوک کی پالیسی ختم نہیں ہوتی مزید بچوں کی اموات ہوتی رہیں گی۔
بھوک سے گرنے والے لوگ
تنظیم نے مزید کہا ہےکہ غزہ میں قحط تمام عمر کے افراد کو متاثر کر رہا ہے، اور 'سینکڑوں بچے، عورتیں اور بوڑھے شدید بھوک سے نڈھال ہو کر گر رہے ہیں۔'
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ "کسی بھی وقت ہمیں اجتماعی اموات دیکھنا پڑ سکتی ہیں"۔
گذشتہ ہفتے کے دوران فلسطینی کارکنوں نے بھوک سے سڑکوں پر بے ہوش ہونے والے لوگوں کے واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ غزہ سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے بھی ایسے کئی واقعات کی تصدیق کی ہے اور خود بھی بھوک کے اثرات کا سامنا کیا ہے۔
واضح رہے کہ2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ میں تمام گزرگاہیں بند کر رکھی ہیں جس سے خوراک، دوا اور انسانی امداد کی علاقے میں آمد ُرک گئی ہے۔
غزہ کے گورنمنٹ میڈیا آفس کے مطابق، تقریباً 6,50,000 بچے بھوک اور غذائی قلت کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہیں، اور تقریباً 60,000 حاملہ خواتین خوراک اور صحت کی بنیادی دیکھ بھال کی کمی کے باعث سنگین خطرات کا سامنا کر رہی ہیں۔
اکتوبر 2023 سے اسرائیل غزہ میں ، زیادہ تر عورتوں اور بچوں سمیت، 59,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر چُکا ہے ۔ فوجی آپریشن نے علاقے کومکمل طور پر تباہ کر دیا، صحت کے نظام کو مفلوج کر دیااور خوراک کی شدید قلت پیدا کر دی ہے۔