بھارت کے اعلیٰ فوجی کمانڈر نے پہلی بار عوامی سطح پر تسلیم کیا ہے کہ مئی میں پاکستان کے ساتھ مختصر لیکن شدید جھڑپ کے دوران ہمارے کچھ لڑاکا طیارے تباہ ہو گئے ہیں۔
سنگاپور میں شنگری۔لا ڈائیلاگ کانفرنس کے موقع پر بلومبرگ ٹی وی کے لئے انٹرویو میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے اعتراف کیا ہے کہ جھڑپ میں ہمارے لڑاکا طیارے تباہ ہوئے ہیں تاہم انہوں نے درست تعداد بتانے سے انکار کیا اور اس موقف کو بھی مسترد کر دیا ہےکہ تنازعہ جوہری تصادم کی طرف بڑھا۔
جنرل انیل چوہان نے طیاروں کے نقصان کی تعداد کی بجائے اس کے پیچھے کارفرما حالات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا ہے کہ"یہ اہم نہیں ہے کہ کتنے طیارے گرائے گئے، بلکہ اس کے پیچھے کارفرما وجوہات اہم ہیں" ۔
اگرچہ انہوں نے پاکستان کے اس دعوے کو "مکمل طور پر غلط" قرار دیا ہےکہ اس نے چھ بھارتی طیارے گرائے ہیں لیکن بھارت کے اصل نقصان ظاہر کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔
چوہان نے کہا ہے کہ بھارتی فوج کی ترجیح اس واقعے سے سبق سیکھنا تھی۔ ہم نے حکمت عملی کی غلطی کی نشاندہی کی، اسے فوری طور پر درست کیا، اور دو دن کے اندر طویل فاصلے تک درست حملوں کے ساتھ کاروائیاں دوبارہ شروع کیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی فضائیہ نے "10 تاریخ کو تمام قسم کے طیارے اور تمام قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ پرواز کی۔"
واضح رہے کہ بھارت نے پہلے کہا تھا کہ اس کے میزائلوں اور ڈرونوں نے اس دن پاکستان بھر میں کم از کم آٹھ فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا، جن میں ایک اسلام آباد کے قریب واقع اڈّہ بھی شامل تھا۔
لیکن پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ بھارت نے 7 مئی کو نقصان اٹھانے کے بعد دوبارہ اپنے لڑاکا طیارے نہیں اڑائے۔
چوہان کے بیانات، 7 مئی کی جھڑپ کے دوران بھارتی فضائی نقصان کے بارے میں کسی بھارتی عہدیدار کی جانب سے، اب تک کی سب سے بڑی صاف گوئی قرار دیئے گئے ہیں ۔
رواں مہینے کے شروع میں، پاکستان کےوزیر اعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ چھ بھارتی جنگی طیارے گرائے گئے ہیں۔ یہ بیان آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں ہے اور بھارتی حکام کی جانب سے اب تک اس کا براہ راست جواب نہیں دیا گیا ۔
کوئی جوہری خطرہ نہیں
میڈیا رپورٹوں کے مطابق، کچھ حملے پاکستان کی جوہری تنصیبات کے قریب واقع اڈوں پر کیے گئے، لیکن خود تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
چوہان اور پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد مرزا دونوں نے کہا ہےکہ تنازعے کے دوران کسی بھی وقت جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ نہیں تھا۔
رائٹرز کے لئے ایک الگ انٹرویو میں بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے کہا ہے کہ "میرا خیال ہے کہ جوہری حد عبور ہونے سے پہلے بہت سی گنجائش ہوتی ہے، اس سے پہلے بہت سے اشارے ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "میری ذاتی رائے ہے کہ جب تنازعہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ معقول لوگ وردی میں ہوتے ہیں۔ اس آپریشن کے دوران، میں نے دونوں طرف کے لوگوں کو اپنے خیالات اور اقدامات میں بہت معقولیت کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ تو ہمیں کیوں فرض کرنا چاہیے کہ جوہری میدان میں کسی اور کی طرف سے غیر معقولیت ہوگی؟"
چوہان نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اور شمال اور مشرق میں بھارت کی سرحدوں سے متصل ہے لیکن تنازعے کے دوران بیجنگ کی جانب سے کسی بھی عملی مدد کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا ہے کہ"جب یہ (اپریل) 22 سے شروع ہوا، ہم نے اپنی شمالی سرحدوں کی آپریشنل یا حکمت عملی کی گہرائی میں کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں دیکھی، اور حالات عمومی طور پر ٹھیک تھے۔"
جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان دہائیوں کی سب سے شدید لڑائی کا آغاز 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حملے سے ہوا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔
نئی دہلی نے اس واقعے کا الزام پاکستان کے حمایت یافتہ "دہشت گردوں" پر لگایا، جسے اسلام آباد نے مسترد کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
جھڑپ میں دونوں فریقوں نے لڑاکا طیاروں، میزائلوں، ڈرونوں اور توپ خانے کا استعمال کیا اور 10 مئی کو جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔