غزہ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے حنظلہ امدادی جہاز پر حملے کی مذّمت کی، اسے "بحری قزاقی" قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ محصور علاقے کی جانب جانے والے انسانی امداد کے قافلوں کی حفاظت کرے۔
غزہ میڈیا آفس نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "ہم، غزّہ پر لاگو کئے گئے ناحق محاصرے کو توڑنے کی خاطر انسانی فریضے کے دائرہ کار میں بین الاقوامی پانیوں میں محوِ سفر 'حنظلہ' بحری جہاز پر، اسرائیلی قابض فوج کے حملے کی شدید مذّمت کرتے ہیں"۔
میڈیا آفس نے اس حملے کو "کھلی جارحیت" قرار دیا اور کہا ہےکہ یہ "بین الاقوامی قانون اور بحری نیویگیشن اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔"
مزید کہا گیا ہے کہ "اس حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ قابض طاقت قانون سے آزاد ایک باغی قوت کے طور پر کام کرتی ہے اور ہر اس انسانی اقدام کو نشانہ بناتی ہے جو غزہ میں محصور اور بھوکے 2.4 ملین فلسطینیوں کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔"
میڈیا آفس نے جہاز پر موجود بین الاقوامی کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی اور اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ کی جانب جانے والے انسانی قافلوں کے لیے "فوری اور سخت اقدامات" کریں تاکہ ان کی بین الاقوامی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
حنظلہ پر حملہ
ہفتے کے روز اسرائیلی افواج نے، غزّہ کی مہلک ناکہ بندی کو توڑنے کے خواہش مند ایکٹیوسٹوں پر مشتمل بحری جہاز، 'حنظلہ' پر حملہ کر دیا ۔
ایک براہ راست نشریات میں مسلح فوجیوں کو جہاز پر چڑھتے اور کارکنوں کو ہاتھ اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کچھ لمحوں بعد نشریات منقطع ہو گئیں اور جہاز کے عملے اور مسافروں کی قسمت تاحال نامعلوم ہے۔
اسرائیلی بحری افواج کے غزہ کے ساحل کے قریب پہنچنے پر جہاز نے مدد کی ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی۔
غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لئے قائم بین الاقوامی کمیٹی نےکہا ہے کہ حنظلہ ،غزہ سے 130 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچنے والے سابقہ امدادی بحری جہاز ' میڈلین' سے 110 کلومیٹر زیادہ آگے تک گیا ہے۔
یہ جہاز 13 جولائی کو سیراکوز، اٹلی سے روانہ ہوا ۔ 15 جولائی کو اس نے تکنیکی مسائل حل کرنے کے لیے گلیپولی میں مختصر قیام کیا اور 20 جولائی کو 21 کارکنوں کے ساتھ روانہ ہو گیا۔
اسرائیلی ساختہ قحط
غزہ شدید قحط کا سامنا کر رہا ہے، جو محصور علاقے میں اسرائیلی نسل کشی کے باعث مزید سنگین ہو گیا ہے۔
2 مارچ سے سرحدی گزرگاہوں کی بندش اور خوراک و ادویات پر پابندی نے بچوں اور مریضوں میں وسیع پیمانے پر بھوک اور شدید غذائی قلت پیدا کر دی ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں تقریباً 60,000 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق، تقریباً 11,000 فلسطینیوں کے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد غزہ کے حکام کی رپورٹ کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے، اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ تقریباً 200,000 ہو سکتی ہے۔
نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تقریباً تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔