آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے پیر کے روز تل ابیب پر اپنی سخت ترین تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی ترسیل کو روکنے کے لیے دی جانے والی "وضاحتیں اور بہانے" ناقابل قبول اور "غیر معتبر" ہیں۔
البانیز نے کینبرا میں اپنی نیوز کانفرنس کے دوران کہا، "اسرائیل کے اقدامات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ غزہ میں ضرورت مند لوگوں کے لیے خوراک اور دیگر اشیاء کی ترسیل روکی جا رہی ہے۔"
البانیز نے بتایا کہ انہوں نے چند دن قبل روم میں اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کے دوران یہ تنقید ان تک پہنچائی۔ انہوں نے اسرائیلی صدر سے کہا: "اسرائیل کے بہانے اور وضاحتیں مکمل طور پر ناقابل قبول اور غیر معتبر ہیں۔"
"لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ تصور کہ ایک جمہوری ریاست انسانی امداد کی فراہمی روک دے، انتہائی افسوسناک ہے۔"
البانیز کی یہ تنقید اقوام متحدہ کی تازہ ترین وارننگ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔
اسرائیل پر پابندیاں
متعدد مغربی ممالک، بشمول برطانیہ، فرانس، اور کینیڈا، نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے غزہ میں محصور علاقے میں "کم سے کم" انسانی امداد کی اجازت دینے کے فیصلے پر تل ابیب پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اگرچہ کینبرا نے اس مشترکہ دھمکی میں شامل ہونے پر دستخط نہیں کیے، لیکن اس نے اسرائیل کے مجوزہ امدادی ماڈل پر بین الاقوامی تنقید میں شامل ہو کر غزہ میں انسانی امداد کی مکمل اور فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
بین الاقوامی جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے، اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2023 سے غزہ کے خلاف وسیع پیمانے کے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں اب تک 53,900 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق، گزشتہ ہفتے کے دوران شدید اسرائیلی حملوں اور محاصرے کی وجہ سے غزہ میں مزید ایک لاکھ 72 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
گزشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں غزہ پر اپنی جنگ کے لیے نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔