امریکی خبر رساں ویب سائٹ Axios کے مطابق، اسرائیل کے شام پر حملوں نے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف "ٹرمپ انتظامیہ کے اندر بڑھتی ہوئی شک کی فضا" پیدا کر دی ہے۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو کی مشرق وسطیٰ پالیسیوں کو اب "بہت زیادہ تباہ کن" سمجھا جانے لگا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے اتوار کو Axios کو بتایا کہ اسرائیل کی حالیہ فضائی کاروائیاں جو شام میں صدارتی کمپاؤنڈ، جنرل اسٹاف ہیڈکوارٹرز اور وزارت دفاع کو نشانہ بنا رہی ہیں، نیتن یاہو کے غیر متوقع رویوں کے بارے میں تشویش میں اضافہ کر رہی ہیں۔
ایک سینئر عہدیدار نے کہا، "ایسا لگتا ہے جیسے ہر روز کچھ نیا ہو رہا ہو۔"
کچھ وائٹ ہاؤس عہدیدار نیتن یاہو کی بڑھتی جارحیت پر تنقید کر رہے ہیں، اور ایک عہدیدار نے کہا، "وہ باولا ہو گیا ہے ، ہر جگہ بمباری کر رہا ہے۔"
خبر میں ایک عہدیدار نے خبردار کیا کہ نیتن یاہو کے اقدامات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شام میں کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ان کی نیک نیتی کو ختم کر سکتے ہیں۔
ایک اور امریکی عہدیدار نے کہا، "شام میں بمباری صدر اور وائٹ ہاؤس کے لیے ایک غیر متوقع کاروائی تھا۔ صدر ایسے ملک میں جہاں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ٹی وی پر بمباری دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔"
ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے غزہ میں ایک چرچ پر بمباری کے بعد ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون کر کے وضاحت طلب کی تھی۔
عہدیداروں نے کہا کہ ٹرمپ کے حلقے میں نیتن یاہو کے بارے میں شک بڑھ رہا ہے اور اسے "کبھی کبھارکسی شرارتی بچے کی طرح" سمجھا جاتا ہے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ واشنگٹن نیتن یاہو اور اس کی علاقائی پالیسیوں کے بارے میں چوکس حالت میں ہے۔
ٹرمپ نے اب تک نیتن یاہو کی اعلانیہ تنقید سے گریز کیا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ ان کے مشیران بھی اسی طرح کی تشویش رکھتے ہیں یا نہیں۔
اسرائیلی اور امریکی عہدیداروں نے اس خبر پر کوئی رد عمل نہیں دیا ۔
شام میں جھڑپیں
جھڑپیں 13 جولائی کو شام کے جنوبی علاقے السویداء میں شروع ہوئیں، جہاں بدوی عرب قبائل اور مسلح دُرزی گروہوں کے درمیان ل جھڑپیں ہوئیں۔
اسرائیل نے جھڑپوں کے بڑھنے پر دمشق میں شام کی فوجی چوکیوں اور انفراسٹرکچر پر فضائی حملے کیے۔ اسرائیل نے یہ حملے دُرزی طبقے کی حفاظت کے لیے کیے جانے کا جواز پیش کیا۔
تاہم شام میں زیادہ تر دُرزی ہنماؤں نے کسی بھی غیر ملکی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے متحدہ شام کے ساتھ وفاداری کا اعادہ کیا ہے۔
امریکی خصوصی نمائندہ برائے شام ٹام بیراک نے اتوار کو اعلان کیا کہ تمام فریقین شام کے وقت کے مطابق شام 5 بجے فائر بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔