امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر ٹیکس میں اضافے کے جواب میں چین کی جانب سے 84 فیصد ٹیرف کا اطلاق جمعرات کو دونوں عالمی معیشتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہوا۔
چین نے ٹرمپ کی جانب سے محصولات کے پہلے دور کے جواب میں 34 فیصد دوطرفہ محصولات کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے ان محصولات کو واپس لینے کی وارننگ کو مسترد کردیا تھا بصورت دیگر وہ ان محصولات میں دوبارہ اضافہ کریں گے۔
ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر محصولات میں 104 فیصد اضافے کے بعد بیجنگ نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد ڈیوٹی عائد کردی۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز محصولات کو مزید بڑھا کر 125 فیصد کر دیا۔
بیجنگ نے 18 امریکی کمپنیوں کو دیگر جوابی اقدامات کے ساتھ تجارتی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل کیا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں فوری طور پر رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
امریکی محصولات کے مسائل کو کم کرنے کے لیے چین تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے کے لیے دوسرے ممالک سے رابطہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
بیجنگ اور برسلز کے درمیان مفاہمت
چین کے صدر شی جن پنگ آئندہ ہفتے ملائیشیا سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ کریں گے۔
بیجنگ کی وزارت تجارت کے مطابق، چین اور یورپی یونین نے عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے ساتھ مشترکہ طور پر کثیر الجہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق یہ معاہدہ چین کے وزیر تجارت وانگ وینٹاؤ اور یورپی کمشنر برائے تجارت و اقتصادی سلامتی ماروس سیفکووچ کے درمیان ایک ورچوئل ملاقات کے دوران طے پایا۔
دونوں رہنماؤں نے چین اور یورپی یونین کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون میں اضافے اور امریکہ کی جانب سے نام نہاد "باہمی محصولات" کے نفاذ پر ردعمل سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی محصولات نے بین الاقوامی تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور یورپی یونین چین سمیت ڈبلیو ٹی او کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے تاکہ بین الاقوامی تجارت کو معمول پر لانے کو یقینی بنایا جاسکے۔