ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کہ جس میں جوہری مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی اور انکار کی صورت میں ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی دی گئی تھی، کا جواب دے دیا ہے۔
عباس عراقچی نے جمعرات کو سرکاری خبر رساں ایجنسی ایرنا کو بتایا، "یہ سرکاری جواب ایک خط پر مشتمل ہے جس میں موجودہ صورتحال اور ٹرمپ کے خط کے بارے میں ہمارا موقف مکمل طور پر ہمارے حریف کو واضح کیا گیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ یہ خط عمان کو پہنچایا گیا، جو ماضی میں امریکہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات نہ ہونے کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ٹرمپ، جنہوں نے 2018 میں ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے پابندیاں ہٹانے کے معاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کر دیا تھا ، اب سفارتی مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
امریکی صدر نے مارچ کے آغاز میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے۔
اسی دوران ، ٹرمپ نے تہران پر اضافی پابندیوں اور مذاکرات سے انکار کی صورت میں فوجی کاررائی کی دھمکی کے ساتھ اپنے "زیادہ سے زیادہ دباؤ"پر مبنی پالیسیوں کو آگے بڑھایا تھا۔
عراقچی نے ٹرمپ کی "زیادہ سے زیادہ دباؤ مہم" کے دوران امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم 'زیادہ سے زیادہ دباؤ' اور فوجی کاروائی کی دھمکی کی پالیسی کے وقت واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن ماضی کی طرح بالواسطہ مذاکرات جاری رہ سکتے ہیں۔
ثالثی
ایران اور امریکہ کے درمیان 1980 سے سرکاری سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔
تاہم، دونوں ممالک نے تہران میں سوئس سفارت خانے کہ جو ایران میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرتا ہے کے ذریعے بالواسطہ رابطہ کیا ہے۔
عمان نے ماضی میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے، جبکہ قطر نے بھی کسی حد تک یہ کردار ادا کیا ہے۔
ٹرمپ کا خط متحدہ عرب امارات کے ذریعے ایران کو پہنچایا گیا۔
ایران نے 2015 میں بڑی طاقتوں، بشمول امریکہ اور چین، کے ساتھ مذاکرات کے بعد اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
مغربی حکومتیں دہائیوں سے شک کرتی رہی ہیں کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ یہ پروگرام صرف شہری مقاصد کے لیے ہے۔
عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق، ایران نے ٹرمپ کی معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایک سال تک معاہدے کا احترام کیا، اس کے بعد اپنی ذمہ داریوں کو کم کر دیا۔
امریکہ کا معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ جزوی طور پر معاہدے میں شامل نہ ہونے والے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی بنیاد پر تھا جسے واشنگٹن نے خطرہ تصور کیا تھا۔