2007 میں ایک مقامی باشندے نے جانور چرانے کے دوران ایک غیر آباد علاقے میں محض تجّسس کی وجہ سے کی گئی کھدائی کے دوران عالمِ اسلام کے ایک خزینے کی دریافت کی۔ یہ خزینہ تمام ادوار کے معتبر ترین مسلمان علماء میں شمار ہونے والے عالم اور کثیر الجہت فکری صلاحیت کے حامل مفّکر 'الغزالی' کی گمشدہ قبر تھی۔
مزار، ایران کے دوسرے گنجان ترین شہر مشہد سے محض 24 کلومیٹر مسافت پر واقع تاریخی شہر، 'طُوس' میں دریافت ہوا۔ یہ دریافت ان تمام کوششوں کا اختتام ثابت ہوئی جو 'تخلیقِ کائنات' کے موضوع پر ارسطو کے افکار کو جھٹلانے اور اِسی وجہ سے 'حجت الاسلام' یعنی اسلام کی دلیل کے لقب سے نوازے گئے اس عظیم مفّکر کی آخری آرمگاہ کی تلاش کے لئے کی جا رہی تھیں۔
لیکن دریافت سے 15 سال بعد بھی مزار تعمیر و مرّمت کا منتظر ہے۔ قدرتی عناصر مزار کی بنیادوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 1111 میں 53 سال کی عمر میں وفات پانے والے ابو حامد محمد بن محمد الغزالی کا مزار تاحال وہ احترام و احتشام دیکھنے سے بھی محروم ہے جو اس کے مکین کی حاصل کردہ کامیابیوں کی وجہ سے اس کا حق ہے۔
مدفون تاریخ
مزار کے انکشاف سے ایک مسحور کُن کہانی منسوب ہے۔ مقامی باشندہ کوئی ماہر ِ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ طُوس کی تاریخ جانتا تھا اور اسے علم تھا کہ عظیم ایرانی شاعر فردوسی طُوس کے رہنے والے تھے اور اسی شہر میں انہوں نے معروف 'شاہنامہ اسلام' تصنیف کیا۔
جانوروں کی چرائی کے علاقے میں واقع ایک ٹیلے سے متاثر ہو کر اس متجسس باشندے نے اس ٹیلے کی چوٹی کی کھدائی شروع کی اور یہاں سے اُسے اہم عمارتوں کے نشانات مِلے۔ اُس نے مقامی حکام کو ان آثار کی اطلاع دی جس پر ایک ٹیم کو علاقے کے جائزے کے لئے بھیجا گیا۔
یہی وہ پہلی ٹیم تھی جس نے الغزالی کے مزار کے گنبد کی بنیادیں پہلی دفعہ دریافت کیں۔ مزار اس وقت ایران کے سب سے بڑے وقف 'آستان قدس رضاوی' کی اراضی میں ہے۔
الغزالی کے مزار کی ٹھیک جگہ مسلمان علماء اور ماہرین کے درمیان موضوعِ بحث بنی رہی اور اس بارے میں اندازے بیان کئے جاتے رہے تھے۔ اس سے قبل بھی بعض مزاروں کی دریافت ہوئی جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ الغزالی کا مزار ہے لیکن بعد میں علم ہوا کہ یہ محض یادگاری مزار تھے۔
مثال کے طور پرسابقہ مزاروں میں سے ایک حقیقی مزار سے محض چند کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ ایک خیال کے مطابق اسے عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے تعمیر کروایا اور یہ ہارونیہ مدرسے کے صحن میں واقع ہے۔
تاہم دریافت شدہ مزار کے اوپر الغزالی کا نام اور دیگر تفصیلات درج ہیں جس وجہ سے اسے ہی اصل مزار قبول کیا جا رہا ہے۔ الغزالی کے ساتھ ان کے چار شاگردوں کے مزاروں کی بھی دریافت ہوئی ہے۔
سلجوقی طرز
سب سے پہلے تو سلجوقی طرزِ تعمیر کی خصوصیات کے حامل آٹھ گوشہ گنبد کی بنیادیں ابتدائی دنوں میں اس کے منظر کے بارے میں ایک تائثر قائم کرتی ہیں۔ ایک قوی احتمال کے مطابق یہ مقام 13 ویں صدی کے پہلے نصف میں یہاں سے گزرنے والے منگول لٹیروں کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کے سامنے ٹھہر نہیں سکا۔ گنبد کی خستہ حالی اس دور کے پُرتشدد وقتوں کی شہادت دیتی ہے۔
لیکن آج یہ مزار متروک دِکھائی نہیں دیتا۔دراڑوں کو بھرنے کے لئے بھونڈے انداز سے کئے گئے پلستر کے علاوہ اس آرکیالوجک خزینے کی بحالی و مرّمت کے لئے اور کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ خاص طور پر جب مزاروں کے تحفظ کے بارے میں ایران کی کوششوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو الغزالی کے مزار سے لاپرواہی اور بھی تعجب خیز بن جاتی ہے۔ ایران کے ادارہ برائے وقوف کے مطابق اس وقت ایران میں 8167 امام زادوں کے مزار پائے جاتے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق امام زادوں کے نام پر پہچانے جانے والے مزاروں میں سے 1979 کی دریافت انقلابِ ایران کے بعد ہوئی ہے۔
اس خستہ حالی میں امام غزالی کا مزار تنہا نہیں ہے۔ ایک اور ایرانی عالم 'نظام الملک' کا مزار بھی کچھ اچھی حالت میں نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے غزالی کے مزار سے بہتر کہا جا سکتا ہے۔
'فلسفہ اسلامی حکومت' پر اور غزالی کے افکار پر نظام الملک کے اثرات کسی بحث کے محتاج نہیں ہیں۔
سینکڑوں سال قبل الغزالی نے فرمایا تھا کہ " میرے عزیز دوست تمہارا دِل ایک مجّلہ آئینہ ہے۔ اس کے اوپر پڑی دھول کو صاف کرو کیوں کہ اُسے الٰہی روشنی کو منعکس کرنے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے"۔
ہو سکتا ہے کہ الغزالی کے مزار سے دھول مٹی صاف ہونے کے بعد ان کی سوانح حیات، تصانیف اور نصائح، ان کی پہلے سے کہیں زیادہ محتاج، دنیا پر زیادہ خوبی سے منعکس ہونا شروع ہو جائیں۔