ایران کے وزیر خارجہ عباس اراغچی نے کہا ہے کہ جوہری مذاکرات کی بحالی کا انحصار ایران کے خلاف کسی بھی فوجی جارحیت سے باز رہنے کی امریکی ضمانت پر ہے۔
اراغچی نے منگل کے روز سی بی ایس نیوز کو بتایا، "مجھے توقع نہیں ہے کہ مذاکرات فوری طور پر دوبارہ شروع ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ ہم دوبارہ مذاکرات کا فیصلہ کریں، ہمیں اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ جب تک بات چیت جاری رہے گی، امریکہ ہمیں فوجی طور پر نشانہ بنانے کی طرف واپس نہیں آئے گا۔ تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 12 روز سے جاری تنازع کے بعد جاری سفارتی تبادلے نے خطے کو وسیع تر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
پیر کے روز وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف اور ایرانی حکام کے درمیان بات چیت کی تصدیق کرتے ہوئے کشیدگی کم کرنے کی جانب محتاط پیش رفت کا اشارہ دیا ہے۔
'قومی فخر اور وقار کا معاملہ'
عراقچی نے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ایران کے مضبوط موقف کا اعادہ کرتے ہوئے اسے "قومی فخر اور وقار کا معاملہ" قرار دیا جس سے تہران "آسانی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔"
انہوں نے حالیہ کشیدگی کے دوران اپنے دفاع کے لیے ایران کی صلاحیت کو بھی اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے دوران ثابت کیا کہ ہم اپنی خودمختاری کا تحفظ کر سکتے ہیں۔
اگر جارحیت دوبارہ شروع ہوئی تو ہم فیصلہ کن جواب دیں گے۔
ایران کی وزارت صحت کے مطابق یہ تنازع 13 جون کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے اپنی سرحدوں کے اندر ایرانی فوجی، جوہری اور شہری مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملے کیے، جس میں کم از کم 935 افراد ہلاک اور 5،300 سے زائد زخمی ہوئے۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیلی اہداف پر میزائل اور ڈرون داغے جس کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد ہلاک اور 3400 سے زائد زخمی ہوئے۔
یہ بحران اس وقت مزید بڑھ گیا جب امریکہ نے فوردو، نطنز اور اصفہان میں ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے، جس سے وسیع تر علاقائی جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا۔
امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی 24 جون کو نافذ العمل ہوئی تھی جس کے نتیجے میں جنگ بندی عارضی طور پر رک گئی تھی کیونکہ سفارتی کوششیں طویل المیعاد حل کے حصول کے لیے جاری ہیں۔