منسوخ شدہ انتخابات اور ایک قوم پرست رہنما کے عروج کے بعد، رومانیہ کو مغربی اثر و رسوخ اور نچلی سطح سے آنے والی خودمختاری کے درمیان پولرائزنگ سوالات کا سامنا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے متنبہ کیا ہے کہ آزاد آوازوں کو رد کرنے سے عوامی عدم اطمینان میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ رومانیہ 24 نومبر کے صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ منسوخ ہونے کے بعد سیاسی طوفان کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آزاد قوم پرست امیدوار کلین جارجسکو 22.94 فیصد ووٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ جارجسکو کا مقابلہ 8 دسمبر کو دوسرے مرحلے میں اصلاح پسند سیو رومانیہ یونین (یو ایس آر) پارٹی کی ایلینا لاسکونی سے ہوگالیکن منسوخی کی وجہ سے یہ توقع حقیقت نہیں بن سکی۔ رومانیہ کی آئینی عدالت (سی سی آر) نے روسی مداخلت اور بے ضابطگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے 24 نومبر کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دے دیا، جس سے ملک سیاسی حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گیا۔ اس فیصلے نے رائے عامہ میں دھڑے بنا کر مشرقی یورپی ملک میں جمہوریت کی حالت اور مغربی اثر و رسوخ کے بارے میں بحث و تمحیص کو جنم دیا۔
بخارسٹ یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس سے الیگزینڈرا۔ایلینا انکو نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایاکہ" بخارسٹ جیسے بڑے شہروں میں انتخابات کے دوسرے مرحلے کے موقع پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے انتخابات کی منسوخی پر سکون محسوس کیاجا رہا ہے۔ تاہم، قریب سے دیکھنے سے کیلن جارجسکو کےاس احساس کا اندازہ ہو جاتا ہے جو وہ رائے دہندگان کی عدم اطمینان اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پر محسوس کر رہی ہیں۔ اس پیچیدہ حِس کا اظہار رومانیہ کے سینٹر فار یورپین پالیسی (سی آر پی ای) کے پروگرام ڈائریکٹر الیگزینڈرو ڈیمیان نے بھی کیا ہے۔ ڈیمین نے ماحول کو "کشیدہ اور غیر یقینی" قرار دیا اور کہا ہےکہ حکام کی طرف سے اطلاعات کی کمی نے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اب جبکہ جارجسکو کے حامی ان فیصلوں سے مزید پریشان ہو رہے ہیں، یورپ نواز فریق محتاط قدموں سے اس فیصلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
آئینی عدالت کی جانب سے انتخابات کی منسوخ کا فیصلہ خفیہ انٹیلی جنس رپورٹوں پر مبنی تھا جن میں انتخابی عمل میں غیر ملکی مداخلت کا الزام لگایا گیا تھا۔ ڈیمین کے مطابق، سپریم ڈیفنس کونسل (سی ایس اے ٹی) نے غیر قانونی مالی عطیات اور ایک انتہائی اچھی مالی اعانت والی سوشل میڈیا مہم سمیت متعدد بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔ جارجسکو کا کیمپ اس فنڈنگ کے ذرائع کو ظاہر کرنے سے قاصر تھا۔ ڈیمین بتاتے ہیں کہ "کیلن جارجسکو نے انتخابی مہم کے دوران صفر اخراجات کی اطلاع دی اور یہ عملی طور پر ناممکن تھا کیونکہ رومانیہ میں انتخابی مہم کی مالی اعانت کے قوانین کافی سخت ہیں۔ انکو نے مزید کہا کہ خاص طور پر ٹک ٹاک پر جارجسکو مہم نے توجہ حاصل کی ہے۔ "سی سی آر نے صیغہ راز کی پابندی سے خارج کی گئی ایسی خفیہ رپورٹوں کو بطور وجہ پیش کیا جن میں انتخابی عمل میں غیر ملکی حکومت کی مداخلت اور جارجسکو کی آن لائن مہم سے متعلق بے ضابطگیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔
کلین جارجسکو کا شاندار عروج
جارجسکو کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے نے رومانیہ کی سیاسی نظم و نسق کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہی جارجسکو جو کسی زمانے میں سیاست میں تقریباً تقریباً نامعلوم شخصیت تھے ایک مہم کے ذریعے ایک ایسی مقبولِ عام سیاسی شخصیت بن گئے جو متعلقہ رائے دہندگان سے رابطہ قائم کر سکتی اور ان کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس عروج کی وجہ جارجسکو کا عام رومانین باشندوں کے اندیشوں کے ترجمان مسائل سے براہ راست دلچسپی لینا ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور سفارتی مشیر ایوانا گوموئی نے بخارسٹ سے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ "لوگ اس شخص کو پاگل پن کی حد تک پہنچے ہوئے جوش و خروش سے متعارف کروا رہے ہیں۔ گوموئی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جارجسکو کی مقبولیت میں قدرتی طور پر اضافہ ہوا کیونکہ انہوں نے نوجوانوں کی بے روزگاری ، تعلیمی اصلاحات اور امن جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی۔ گوموئی نے کہا ہےکہ جارجسکو کو نچلے طبقے سے "حقیقی حمایت" حاصل ہے کیونکہ وہ ان مسائل کو حل کر رہے ہیں جنہیں مرکزی دھارے کے سیاست دان ایک طویل عرصے سے نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں۔
گوموئی نے کہا ہے کہ "وہ، امن، نوجوانوں کی بے روزگاری، نوجوانوں کی نقل مکانی، تعلیم اور زرعی نظام کے خاتمے کے بارے میں بات کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہائیوں کے سیاسی جمود سے نڈھال ملک میں یہ موضوعات مقبولِ عام موضوعات ہیں۔ گوموئی نے کہا کہ"رومانیہ کے لوگ تھک چکے ہیں۔ جمہوریت کو 30 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ جارجسکو ان مسائل کے بارے میں بات کرتا ہے جن کی لوگ پرواہ کرتے ہیں۔ کسی بھی باضابطہ پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود جارجسکو نے خاص طور پر ٹک ٹاک اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کا استعمال کر کے عوامی سطح پر نمایاں حمایت حاصل کی ہے۔ گوموئی کا کہنا ہے کہ "وہ رومانیہ کی سب سے بہترین با رسوخ شخصیت ہیں۔
آگے کا راستہ: کیا جارجسکو دوبارہ انتخاب لڑیں گے؟
رومانیہ کے سیاسی مستقبل کا انحصار نئی حکومت کی تشکیل اور نئے عہدی صدارت کا دارومدار انتخابات کے شیڈول پر ہے، جو ممکنہ طور پر مارچ 2025 میں ہوں گے۔
اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے یورپ نواز جماعتوں کے درمیان غیر رسمی مذاکرات جاری ہیں لیکن اس عمل میں بہت سی مشکلات ہیں۔ لانکو نے خبردار کیا کہ اگر پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں کسی سمجھوتے پر بھی پہنچ جاتی ہیں تو نئے اتحاد کی اعلیٰ سطح کی پارلیمانی تقسیم اور نظریاتی تنوع کی وجہ سے مشکل وقت کا سامنا ہو گا۔ گوموئی نے جارجسکو کو آئندہ عمل سے باہر کرنے کی ممکنہ کوششوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہے کہ "پورے انتخابی عمل کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا، جس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ ہم ممکنہ طور پر نئے امیدواروں کو دیکھیں گے اور جارجسکو کو انتخاب لڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ وہ اس کے خلاف کچھ تلاش کریں گے ، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے ایک اور امیدوار ، ڈیانا ایوانوویسی ۔سیوآکو کے ساتھ کیا تھا"۔
انہوں نے کہا ہے کہ "ساؤآکو کو (ان کے روس نواز خیالات کی وجہ سے) صدارتی دوڑ سے روک دیا گیا تھا"۔
تاہم گوموئی نے متنبہ کیا ہے کہ جارجسکو کو نااہل قرار دینا سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جارجسکو کو دوبارہ انتخاب لڑنے سے روکا گیا تو عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوگا۔ یہ صرف اس کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ان بڑے مسائل کے بارے میں ہے جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی آواز سنی جائے، اور وہ تبدیلی کا مطالبہ کرنا بند نہیں کریں گے۔ جارجسکو کی مقبولیت ،یورپی یونین اور نیٹو کے فریم ورک کے اندر رومانیہ کے حالات کےبارے میں گہری مایوسی کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ رومانیہ کے لوگ یورپی یونین رکنیت کی طرف سے پیش کردہ مواقع کو سراہتے ہیں لیکن عدم مساوات کے بارے میں عدم اطمینان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
مثال کے طور پر ، گوموئی نے ریاستی امداد میں عدم مساوات کی نشاندہی کی ، جیسے یوکرینی پناہ گزینوں کے لئے زیادہ مالی مدد۔ "ہمارے پاس بہت سارے عمر رسیدہ لوگ ہیں جنہیں قریب آتےکرسمس کے دنوں میں بھی کھانا نہیں مل رہا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی دوا کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ہمارے ملک کو سب سے پہلے اپنے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے"۔