ڈونلڈ ٹرمپ منگل کے روز خلیجی دورے کی پہلی کڑی سعودی عرب پہنچے ہیں۔ اس دورے میں وہ قطر اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے، جہاں وہ کاروباری معاہدوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات پر معاہدے کرنا شاید زیادہ مشکل ثابت ہو گا۔
ٹرمپ کے ساتھ کئی بااثر امریکی کاروباری شخصیات بھی ہیں، جن میں ٹیسلا کے سی ای او اور ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک شامل ہیں۔ ان کا پہلا پڑاؤ ریاض ہے، جہاں وہ سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم میں شرکت کریں گے۔ بدھ کو وہ قطر اور جمعرات کو متحدہ عرب امارات جائیں گے۔
سعودی سرمایہ کاری کے وزیر خالد الفالح نے فورم کے آغاز پر کہا، "اگرچہ توانائی ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے، لیکن مملکت میں سرمایہ کاری اور کاروباری مواقع کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا، "جب سعودی اور امریکی مل کر کام کرتے ہیں تو بہت خوش آئند نتائج سامنے آتے ہیں۔"
سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم کا آغاز ایک ویڈیو کے ساتھ ہوا، جس میں عقابوں اور شاہینوں کو دکھایا گیا، جو امریکہ اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک شاندار ہال کے سامنے کی نشستوں پر بلیک راک کے سی ای او لیری فنک، بلیک اسٹون کے سی ای او اسٹیفن اے شوارزمین، امریکی خزانہ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ، سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان اور خالد الفالح موجود تھے۔
سعودی عرب اور امریکہ نے دہائیوں سے مضبوط تعلقات قائم رکھے ہیں، جو اس معاہدے پر مبنی ہیں کہ مملکت تیل فراہم کرتی ہے اور امریکہ سلامتی فراہم کرتا ہے۔
ممکنہ دورہ ترکیہ اور ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات
ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ جمعرات کو ترکیہ کا دورہ کر سکتے ہیں، جہاں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ممکنہ طور پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ٹرمپ کا دوسرا غیر ملکی دورہ ہے—پہلا دورہ روم میں پوپ فرانسس کی آخری رسومات کے لیے تھا—اور یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جغرافیائی سیاسی کشیدگی عروج پر ہے۔
یوکرین کی جنگ کے حل کے لیے دباؤ ڈالنے کے علاوہ، ٹرمپ کی انتظامیہ جنگ زدہ غزہ کے لیے ایک نئی امدادی میکانزم پر زور دے رہی ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر ایک نئے جنگ بندی معاہدے پر راضی ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
اختتامالہفتہ ، امریکی اور ایرانی مذاکرات کار عمان میں ملاقات کی، تاکہ تہران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے ممکنہ معاہدے پر بات چیت کی جا سکے۔
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے گی۔
تاہم، ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے موجودہ شیڈول میں ماسوائے ممکنہ دورہ ترکیہ کے علاوہ یہ معاملات شامل نہیں ہیں ۔
سعودی دفاع، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی
امریکہ، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات ایسے سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کرنے والے ہیں، جو کھربوں ڈالر تک جا سکتے ہیں۔
سعودی عرب نے پہلے ہی جنوری میں اگلے چار سالوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے، لیکن ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پورے کھرب ڈالر کا مطالبہ کریں گے۔
ایلون مسک کے علاوہ، بلیک راک کے سی ای او لیری فنک اور سٹی گروپ کی سی ای او جین فریزر جیسے کاروباری رہنما بھی اس دورے میں شامل ہوں گے۔
وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ بھی صدر کے ہمراہ ہیں۔
ریاض میں قیام کے دوران، ٹرمپ سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیاروں کا پیکج پیش کرنے کی توقع رکھتے ہیں، جس میں جدید ہتھیاروں کی ایک رینج شامل ہو سکتی ہے، جیسے C-130 ٹرانسپورٹ طیارے وغیرہ۔
ذرائع کے مطابق، امریکہ اور سعودی عرب ریاض اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے موضوع سے مکمل طور پر گریز کریں گے، حالانکہ یہ خطے میں ٹرمپ کا سب سے اہم جغرافیائی سیاسی ہدف ہے۔
ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ابراہیم معاہدوں کو وسعت دینے پر جلد پیش رفت کی توقع رکھتے ہیں، جو ٹرمپ کی پہلی مدت میں طے پائے گئے تھے اور جن کے تحت عرب ریاستوں بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ غزہ کی جنگ کو مستقل طور پر ختم رنے یا ریاستِ فلسطین کے قیام پر نیتن یاہو کی مخالفت کے باعث ریاض کے ساتھ اسی طرح کی بات چیت پر پیش رفت کا امکان کم ہے۔
ٹرمپ کے قطر اور متحدہ عرب امارات کے دوسرے اور تیسرے قیام بھی اقتصادی معاملات پر مرکوز ہونے کی توقع ہے۔
قطر کے شاہی خاندان سے توقع ہے کہ وہ ٹرمپ کو ایک لگژری بوئنگ 747 طیارہ تحفے میں دیں گے، جسے ایئر فورس ون کے طور پر استعمال کے لیے تیار کیا جائے گا، اور اس چیز نے اخلاقیات کے ماہرین کی جانب سے تنقید کو جنم دیا ہے۔
ٹرمپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ طیارے کو اپنی صدارتی لائبریری کے لیے عطیہ کریں گے، تاکہ ان کی مدت ختم ہونے کے بعد استعمال ہو سکے۔