امریکہ کی یوکرین اور غزہ سے متعلق متنازع پالیسیوں کے بعد، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، امریکہ کے دیرینہ حریف کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن ممکنہ معاہدے کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایران کا جوہری پروگرام، جس کی افزودگی کی سطح ہتھیاروں کے معیار کے قریب پہنچ رہی ہے، تنازعات کا ایک اہم موضوع ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ان کی 'زیادہ سے زیادہ دباؤ' کی مہم نے تہران کو واشنگٹن کے ارادوں پر گہرا عدم اعتماد پیدا کر دیا تھا۔
ٹرمپ نے فاکس نیوز کو حال ہی میں انٹرویو میں بتایا کہ، "میں معاہدہ کرنا چاہوں گا۔ مجھے یقین نہیں کہ سب مجھ سے متفق ہوں گے، لیکن ہم ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں جو عسکری فتح کے برابر ہو۔"
تاہم، ٹرمپ کے مصالحتی لہجے میں دھمکیاں بھی شامل تھیں: "اگر ہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی تو یہ ان کے لیے بہت برا ہوگا۔" انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ، "کچھ بہت جلد ہونے والا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "دوسرا متبادل یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا کیونکہ آپ انہیں جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔"
ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے، لیکن اس نے یورینیم کی افزودگی کو اعلیٰ سطح پر جاری رکھا ہے، خاص طور پر جب پچھلی ٹرمپ انتظامیہ نے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی، جس سے ایران کے ساتھ اوباما دور کا معاہدہ ختم ہو گیا تھا۔
ٹرمپ خود کو ایک ماہر مذاکرات کار کے طور پر پیش کرتے ہیں اور تہران پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، لیکن ایران نے کوئی لچک نہیں دکھائی۔ ایران کی جانب سے 'ٹرمپ کی دھمکیوں' پر ردعمل لا پرواہی کا مظہر رہا۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے امریکہ کا نام لیے بغیر "دھونس جمانے والی حکومت" کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر دیا ۔
دوسری جانب، ایران کے اعتدال پسند صدر مسعود پزشکیان کا جواب دو ٹوک تھا: "جو چاہے کر لو۔"
تاہم، ایران کے اقوام متحدہ میں مشن نے مذاکرات کے لیے تھوڑی گنجائش چھوڑی ہے۔ مشن نے ایک بیان میں کہا، "اگر مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کی ممکنہ عسکریت سے متعلق خدشات کو دور کرنا ہے، تو ایسی بات چیت پر غور کیا جا سکتا ہے۔"
ٹرمپ کی پیشکش کے گرد پائی جانے والی الجھن نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ تاہم، اطلاعات کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے بدھ کے روز تہران کو یہ خط پہنچایا، جو رابطے کی حالت کے مزید بکھراؤ کا شکار ہونے کا مظہر ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ ایرانی تیل کے ٹینکروں کو سمندر میں روکنے اور ان کی تلاشی لینے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ اس نے 2003 کے بین الاقوامی معاہدے، 'پھیلاؤ کی روک تھام کے اقدام' کا حوالہ دیا، جو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
کیا دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات ممکن ہیں؟
ایرانی-کینیڈین سیاسی تجزیہ کار غنچہ تزمینی کہتی ہیں، "یہ حقیقت کہ ٹرمپ نے اسس کا عوامی طور پر پہلے ہی اعلان کر دیا، نے پوری صورتحال کو مشکوک بنا دیا ہے۔"
ڈاکٹر ڈاریا ڈینیئلز سکودنک، ایک ساور نیٹو ڈیفنس کالج روم کی سابق ڈپٹی کمانڈنٹ، کہتی ہیں، "ٹرمپ کا خط جوہری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کا اشارہ دیتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "یہ ٹرمپ کی طویل عرصے سے جاری 'زیادہ سے زیادہ دباؤ' کی حکمت عملی کے مطابق ہے، جو پابندیوں اور روک تھام کے ذریعے تہران کو رعایتیں دینے پر مجبور کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔"
ڈاکٹر سکودنک نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایران کے انقلابی گارڈ کور (IRGC) پر گزشتہ سال ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا، جس سے براہ راست سفارت کاری کے امکانات مزید خراب ہو گئے ہیں۔
تزمینی نے کہا، "ایران کو مذاکرات کی میز پر لانا مشکل ہوگا۔" انہوں نے مزید کہا، "سپریم لیڈر کے کیمپ میں فوجی-سیکیورٹی-انٹیلیجنس دھڑا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی شمولیت کے بارے میں انتہائی شکوک و شبہات رکھتا ہے۔"
خامنہ ای نے خود ٹرمپ کے خط کو "دھوکہ" قرار دیا، جس سے تہران کے امریکی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے مزاحمت کے رجحان کو تقویت ملی۔
لیکن ایرانیوں نے بیجنگ میں روسیوں کے ساتھ ایک چین کی سرپرستی میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کی تاکہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے طریقے تلاش کیے جا سکیں، جو اکتوبر میں ختم ہو جائے گا اگر اسے تجدید نہ کیا گیا۔
چین کے اقوام متحدہ کے سفیر فو کانگ نے بدھ کے روز ایران کے جوہری پروگرام پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک خصوصی اجلاس سے قبل کہا، "ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ ہم اکتوبر میں ختم ہونے کی تاریخ سے پہلے محدود وقت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاکہ ایک نیا معاہدہ ہو سکے اور جوہری معاہدے کو برقرار رکھا جا سکے۔"
انہوں نے مزید کہا، "کسی خاص ملک پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا سود مند نہیں ہو گا" جو ٹرمپ کی ایران کو دی گئی دھمکیوں کی طرف اشارہ تھا۔
کیا ایرانی ناکامیاں تہران کو معاہدے پر مجبور کر سکتی ہیں؟
اکتوبر کے بعد سے ایران کا علاقائی اثر و رسوخ کمزور ہو گیا ہے۔ اس کا لبنانی اتحادی حزب اللہ اسرائیلی حملوں سے متاثر ہوا ہے، جبکہ شام کی اسد حکومت—ایران کا ایک اور اتحادی—دسمبر میں اچانک اپوزیشن کی پیش قدمی کے ساتھ زوال پذیر ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر سکودنک کہتی ہیں، "ایران کی علاقائی مزاحمت کمزور ہو گئی ہے، جس سے اس کی پوزیشن مزید غیر محفوظ ہو گئی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "اسرائیل نے ایران کے فضائی دفاعی نیٹ ورک کا زیادہ تر حصہ منظم طریقے سے ختم کر دیا ہے، جس سے اس کے جوہری مقامات کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔"
یہ ناکامیاں بالآخر تہران کو سفارت کاری کی طرف دھکیل سکتی ہیں—لیکن کمزوری کے تصور سے نہیں۔ سکودنک نے مزید کہا، "ایران شاید سخت حالات کو برداشت کرنے کو ترجیح دے گا بجائے اس کے کہ یہ دباؤ کے ماحول میں مذاکرات کرے۔"
معاہدہ کرنے کے لیے کیا ضروری ہوگا؟
ڈاکٹر سکودنک کہتی ہیں، "کسی بھی معاہدے کے قابل عمل ہونے کے لیے، 'علاقائی یا یورپی یونین کی سرپرستی' ضروری ہوگی۔" انہوں نے مزید کہا، "سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے خلیجی ممالک، جن کے تہران کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آ رہی ہے، ثالث کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ایک مرحلہ وار اقتصادی آزادی-جوہری پابندیوں کے فریم ورک میں طرح طرح کے الٹی میٹمز کے بجائے زیادہ امکانات پیدا کر سکتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکہ اپنی حکمت عملی کو اس سمت میں منتقل کرے کہ " جوہری کشیدگی میں کمی کے بدلے ایرانی سرزمین پر اسرائیلی پیشگی حملوں کو محدود کرے " تو یہ تہران کو "اپنے جوہری عزائم کو دوبارہ ترتیب دینے" کی ترغیب دے سکتا ہے۔
عالمی ایٹمی انرجی ایجنسی کے تخمینوں کے مطابق، تہران کی جوہری افزودگی 60 فیصد خالصیت تک پہنچ چکی ہے، جو اوباما دور کے جوہری معاہدے کی حدود سے کہیں زیادہ ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے 90 فیصد خالصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سکودنک نے مزید کہا، "اپنی کمزور پوزیشن کے باوجود—یا شاید اسی وجہ سے—ایران کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملہ ایک خطرناک آپشن ہے جو بحران کو حل کرنے کے بجائے طول دے سکتا ہے۔"