واشنگٹن ڈی سی —
امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز (ریپبلکن-ٹیکساس) ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کی حمایت کا دفاع کرتے ہوئے ایک شدید بحث میں الجھ گئے ہیں۔
منگل کے روز ہونے والے انٹرویو میں، قدامت پسند میزبان ٹکر کارلسن نے کروز سے سوال کیا، "ایران میں کتنے لوگ آباد ہیں؟"
کروز نے جواب دیا، "مجھے آبادی کا علم نہیں۔"
کارلسن نے دباؤ ڈالا، "آپ اس ملک کی حکومت گرانے کی بات کر رہے ہیں اور آپ کو اس کی آبادی تک کا علم نہیں؟"
کروز نے جواب دیا، "میں آبادی کے جدول یاد کرنے میں وقت نہیں گزارتا۔"
کارلسن نے کہا، "ایران کی آبادی 92 ملین ہے۔"
یہ گفتگو قدامت پسندوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کو ظاہر کرتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ریپبلکن حلقہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کرنے والوں اور اس کے خلاف خبردار کرنے والوں میں منقسم نظر آتا ہے۔
کارلسن نے ایران کے نسلی اور مذہبی پس منظر پر بھی کروز سے سوال کیا۔
کروز نے جواب دیا کہ ایرانی "فارسی اور زیادہ تر شیعہ" ہیں لیکن وہ کوئی اعداد و شمار فراہم نہ کر سکے۔
کارلسن نے کہا، "آپ ایک سینیٹر ہیں جو ایک حکومت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں اور آپ کو اس ملک کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔"
کروز نے جواب دیا، "آپ کو کچھ معلوم نہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔"
انٹرویو میں واشنگٹن کے اسرائیل کی ایران پر حملوں میں کردار کے حوالے سے تضادات بھی سامنے آئے۔
کروز نے کہا، "ہم آج فوجی حملے کر رہے ہیں،" پھر وضاحت کی: "اسرائیل ہماری مدد سے ان کی قیادت کر رہا ہے ۔"
کارلسن نے نشاندہی کی کہ وائٹ ہاؤس نے کسی بھی براہ راست امریکی کردار کی تردید کی ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ ایک حساس معاملہ ہے، سینیٹر۔ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ امریکی حکومت ملوث ہے — لوگ سن رہے ہیں۔"
کروز نے جواب دیا، "ہم اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔"
امریکی قومی سلامتی کونسل نے کسی بھی براہ راست فوجی مداخلت کی تصدیق نہیں کی۔
سرکاری بیانات اب تک اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت اور ایران کو دی گئی وارننگز تک محدود ہیں۔
دائیں بازو کی تقسیم
سابق فاکس نیوز میزبان کارلسن نے ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی جارحیت کی حمایت پر صدر ٹرمپ پر تنقید کی اور خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکہ کو ایک اور مہنگی جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے سابق چیف اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن کے ساتھ ایک گفتگو میں، کارلسن نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ لمحہ "امریکہ کے زوال " کا سبب بن سکتا ہے۔
ٹرمپ نے ان تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے کارلسن کو "عجیب و غریب" کہا اور ان کی ذرائع ابلاغ میں حیثیت کا مذاق اڑایا۔
دی نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ دائیں بازو کے میڈیا اور میگا بیس کے اندر ایک وسیع خلا جنم، لے رہا ہے جبکہ کارلسن نے سابق ساتھیوں پر ایسی جنگوں کو شہہ دینے کا الزام لگایا جو "امریکہ کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں۔"