اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے جنوبی ایشیا میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی حالت پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور بھارت کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان پر لگائے گئے "بے بنیاد الزامات" کو خطے میں کشیدگی بڑھانے کا اہم سبب قرار دیا ہے۔
57 رکنی او آئی سی نے پیر کے روز جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا ہےکہ اس نوعیت کے الزامات پہلے سے ہی نازک صورتحال کو مزید خراب کرسکنے کی حد تک خطرناک ہیں۔ تنظیم نے "دہشت گردی کی تمام اقسام اور مظاہر " کے مقابل اپنے اصولی موقف کو بھی دہرایا ہے۔
بیان میں یہ بھی واضح کیا گیاہے کہ "تنظیم،کسی بھی ملک، نسل، مذہب، ثقافت یا قومیت کو دہشت گردی سے جوڑنے کی تمام کوششوں کو مسترد کرتی ہے۔"
کشمیر کے جاری تنازعے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ"یہ غیر حل شدہ تنازعہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو متاثر کرنے والا بنیادی مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں درج اور ناقابل تنسیخ "حقِ خودارادیت" سے محروم رکھا جا رہا ہے۔"
مزید کہا گیا ہےکہ " اسلامی تعاون تنظیم ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل 'انتونیو گوتریس' کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کو سراہتی ہے۔ تنظیم صورتحال پر قابو پانے کے لئے بین الاقوامی برادری، بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بااثر حکومتوں سے، فوری اور قابل اعتماد اقدامات کرنے کی اپیل کرتی ہے ۔"
بھارت نے کشمیر کے ڈیموں پر 'ریزروائر فلشنگ' شروع کر دی
جب گذشتہ ماہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح حملے کے بعد سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے ۔
بھارت نے فوری طور پر اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر کے "سرحد پار روابط" کا دعویٰ کیا، تاہم اس دعوے کے حق میں رائے عامہ کے سامنے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
اسلام آباد نے اس الزام کی سختی سے تردید کی اور آزادانہ نگرانی کے ساتھ غیر جانبدار تحقیقات کی تجویز پیش کی ہے۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف سفارتی اقدامات کیے ہیں، جن میں ایک دوسرے کے شہریوں کے ویزے منسوخ کرنا اور سفارتی عملے کو واپس بلانا شامل ہے۔
بھارت نے ، 1960 میں طے پانے والے اور پانی کے استعمال اور تقسیم پر مبنی سندھ طاس معاہدےکو منسوخ کر دیا اور اعلان کیا ہے کہ "پاکستان کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جائے گا۔"
پاکستان نے بھارت کے خلاف جوابی اقدامات کیے ہیں، جن میں شملہ معاہدے کو معطل کرنا اور بھارتی ایئر لائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنا شامل ہے۔
اسلام آباد نے کہا ہے کہ نئی دہلی کی جانب سے پانی کا بطور ہتھیار استعمال "اعلانِ جنگ" سمجھا جائے گا۔
تاہم پیر کے روز بھارتی زیر انتظام کشمیر کے قصبے اکھنور میں، جہاں دریائے چناب پاکستان میں داخل ہوتا ہے، مقامی رہائشیوں نے کہا ہے کہ پانی کی سطح اتنی کم ہو گئی ہے کہ لوگ دریا کے پار پیدل چل سکتے ہیں۔
55 سالہ کسان بل کرشن نے کہا ہے کہ "میں نے اپنی زندگی میں کبھی اس دریا کو اتنا خشک نہیں دیکھا۔"
بھارت نے کشمیر کے ہمالیائی علاقے میں دو ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں میں ذخائر کی گنجائش بڑھانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے، جو، 1960 سے تین جنگوں اور دیگر تنازعات کے باوجود برقرار رہنے والے،"سندھ طاس معاہدے" کے تحت طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کا پہلا ٹھوس قدم ہے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں، بھارت نے مشتبہ مزاحمتکاروں کے گھروں کو مسمار کر دیا ہے اور مبینہ طور پر تقریباً 2,800 کشمیریوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پیر کے روز جاری کردہ بیان میں دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی اور کہا ہے کہ "یقین رکھیں کہ فوجی حل کوئی حل نہیں ہے" ۔
گوتریس نے کہا ہے کہ "اب وقت ہے کہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹا جائے ۔ اقوام متحدہ کسی بھی ایسی پہل کی حمایت کے لیے تیار ہے جو کشیدگی کو کم کرنے، سفارت کاری کو فروغ دینے اور امن کے عزم کو تقویت دے۔"
پیر کے روز، پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے مظفرآباد کے قریب پہاڑی گاؤں بیلا نور شاہ میں صحافیوں کے ایک گروپ کی قیادت کی — جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا مرکزی شہر ہے — جہاں انہوں نے کہا کہ نئی دہلی نے ایک عسکریت پسند تربیتی کیمپ کی موجودگی کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔
گاؤں کے رہائشیوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے علاقے میں کبھی ایسا کوئی کیمپ نہیں دیکھا۔
ایران کے اعلیٰ سفارتکار کا دورہ پاکستان
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پیر کے روز اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
عراقچی نے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں استحکامِ امن کے لئے ان کی کوششوں کو سراہا گیا ہے۔
عراقچی اس ہفتے بھارت کا دورہ کریں گے۔
کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہے اور دونوں اس پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔
دونوں ممالک اس ہمالیائی خطے پر دوجنگیں لڑ چُکے ہیں اور کشمیر پر متضاد دعووں کی وجہ سے ان کے باہمی تعلقات تنازعات، جارحانہ سفارت کاری اور باہمی شبہات کی شکل اختیار کر چُکے ہیں۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں مزاحمتکار 1989 سے نئی دہلی کے اقتدار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ بہت سے کشمیری مسلمان اس علاقے کو یا تو پاکستانی حکومت کے تحت یا ایک آزاد ملک کے طور پر متحد کرنے کے خیال کی حمایت کرتے ہیں۔
متنازعہ علاقے میں بھارت نے تقریباً 500,000 فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور علاقے میں ، زیادہ تر کشمیری شہریوں پر مشتمل، دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔