امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ درآمد شدہ اسٹیل اور ایلومینیم پر محصولات کو 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اس اقدام کو ملکی صنعتوں کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔
ٹرمپ نے جمعہ کے روز پنسلوانیا کے شہر پٹسبرگ میں یو ایس اسٹیل فیکٹری میں منعقدہ جلسے میں مزدوروں سے خطاب میں کہا ہے کہ "آج میرے پاس ایک اہم اعلان ہے۔ ہم محصولات میں 25 فیصد اضافہ نافذ کرنے جا رہے ہیں۔ ہم کسٹم محصولات کو 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر رہے ہیں... جو امریکہ میں اسٹیل کی صنعت کو مزید محفوظ بنائے گا۔ کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکے گا۔"
انہوں نے کہا کہ یہ اضافہ ان محصولاتی رکاوٹوں کی پائیداری کے لئے کیا گیا جنہیں غیرملکی حریف سابقہ محصولات کی کمزوریوں سے استفادہ کر کے عبور کر رہے تھے ۔
ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ "25 فیصد پر، وہ کسی حد تک اس رکاوٹ کو عبور کر سکتے ہیں۔ لیکن 50 فیصد پر، وہ اس رکاوٹ کو عبور نہیں کر سکیں گے۔"
تقریر کے فوراً بعد ٹروتھ سوشل سے جاری کردہ بیان میں ٹرمپ نے تصدیق کی ہےکہ نیا 50 فیصد محصولاتی نرخ ایلومینیم کی درآمدات پر بھی لاگو ہوگا اور بدھ، 4 جون سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
یہ اقدام وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد ٹرمپ کی جانب سے متعارف کردہ جارحانہ تجارتی پالیسیوں کی ایک تازہ ترین کڑی ہے۔ انہوں نے اتحادیوں اور مخالفین دونوں پر وسیع محصولات عائد کیے ہیں، جس کا مقصد امریکی پیداوار کو دوبارہ بحال کرنا اور غیر ملکی مصنوعات پر انحصار کم کرنا ہے۔
نپون اسٹیل معاہدے کی تعریف
مون ویلی ورکس کے ارون پلانٹ میں خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے یو ایس اسٹیل اور جاپان کی نپون اسٹیل کے درمیان ایک مجوزہ شراکت داری کی بھی تعریف کی، جسے انہوں نے "شاندار معاہدہ" قرار دیا ہے تاہم انہوں نے، دو طرفہ سیاسی مخالفت کے حامل، اس معاہدے کے بارے میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کیں ۔
انہوں نے مزدوروں کو یقین دلایا ہے کہ اس معاہدے کے تحت "یو ایس اسٹیل امریکی کنٹرول میں رہے گی" ۔ نہ کوئی ملازمت ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی خارجی استعمال میں جائے گی۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ منصوبے کے تحت نپون اسٹیل، مون ویلی ورکس تنصیب میں اسٹیل کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے 2.2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ علاوہ ازیں انڈیانا، مینیسوٹا، الاباما اور آرکنساس میں پلانٹوں کی جدت ، کان کنی میں اضافے اور نئے پلانٹوں کی تعمیر کے لیے اضافی 7 بلین ڈالر خرچ کرے گا۔
تاہم ناقدین محتاط ہیں۔ یو ایس اسٹیل کے ہزاروں ملازمین کی نمائندہ یونائیٹڈ اسٹیل ورکرز یونین (یو ایس ڈبلیو) نے کہا ہےکہ اس سے مشورہ نہیں کیا گیا۔
یو ایس ڈبلیو کے بین الاقوامی صدر ڈیوڈ میک کال نے کہا ہے کہ "ہم 'منصوبہ بند شراکت داری' کے معنی کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکتے۔"
"معاہدے کے ڈھانچے سے قطع نظر، ہماری بنیادی تشویش یہ ہے کہ یو ایس اسٹیل کے ایک غیر ملکی حریف میں انضمام کا قومی سلامتی، ہمارے اراکین اور ان کمیونٹیوں پر کیا اثر پڑے گا جہاں ہم رہتے اور کام کرتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "تفصیلات میں ہمیشہ شیطان چھپا ہوتا ہے۔"
جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ٹرمپ نے جارحانہ محصولاتی پالیسی اپنائی ہے، اتحادیوں اور مخالفین دونوں سے درآمدات پر بھاری محصولات عائد کئے ہیں، جو امریکی صنعت کے تحفظ کے ان کے وعدے کا حصہ ہیں۔
تاہم، ان اقدامات نے عالمی تجارت اور مالیاتی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ کو ہوا دی اور سفارتی تعلقات پر دباؤ ڈالا ہے۔ خاص طور پر، محصولات میں اضافے نے واشنگٹن۔ بیجنگ تعلقات کو مزید خراب کر دیا ہے۔اس طرح دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی کشیدگی دوبارہ تازہ ہو گئی ہے۔