البانیہ کے حکام نے انٹرنیٹ سروس کے تمام فراہم کنندگان کو حکم دیا ہے کہ جمعرات تک ٹک ٹاک تک رسائی بلاک کر دی جائے۔
الیکٹرانک اور پوسٹل کمیونیکیشن اتھارٹی کے بیان کے مطابق، فراہم کنندگان کو ایپ سے منسلک تمام متعلقہ آئی پی ایڈریسوں اور ڈی این ایس سرورز کو بلاک کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم ایڈی راما نے سب سے پہلے دسمبر میں اس پابندی کا اعلان کیا تھا، جب سوشل میڈیا پر شروع ہونے والے ایک تنازعے کے نتیجے میں دارالحکومت تیرانا کے قریب ایک اسکول میں جھگڑے کے دوران ایک 14 سالہ طالب علم ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔
مختصر ویڈیو مناظر کے غیر محدود سلسلے کی وجہ سے ٹک ٹاک نوجوانوں میں بے حد مقبول ہےاور دنیا بھر میں اس کے فعال صارفین کی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔
تاہم، چینی ملکیت والے اس پلیٹ فارم کو اکثر تنازعات کا سامنا رہا ہے۔
امریکہ میں اس ایپ پر جاسوسی کے الزامات لگائے گئے ہیں اور یورپی یونین اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا اسے رومانیہ کے صدارتی انتخابات میں ایک دائیں بازو کے امیدوار کے حق میں اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔
البانیہ حکومت نے اسکولوں میں لڑائی سمیت تشدد کو فروغ دینے میں مبینہ کردار پر ٹک ٹاک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تاہم، حزب اختلاف نے حکومتی فیصلے کے خلاف مظاہروں کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مئی میں متوقع پارلیمانی انتخابات سے قبل یہ پابندی ان کی انتخابی مہم کو متاثر کرے گی۔
دنیا کے دیگر حصوں میں، ٹک ٹاک پر اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ صارفین کو ایک مبہم الگورتھم کے ذریعے مواد کے محدود دائرے میں رکھتا ہے اور خاص طور پر نوجوانوں میں غلط معلومات، غیر قانونی، پرتشدد یا فحش مواد کے پھیلاؤ کو فروغ دیتا ہے ۔
متعدد ممالک مختلف اوقات میں اس ایپ پر پابندی لگا چُکے ہیں۔ان ممالک میں پاکستان، نیپال اور فرانس کے علاقے نیو کیلیڈونیا شامل ہیں۔
کئی ممالک میں درجنوں حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیموں کو ٹک ٹاک کی جانب سے ان ویڈیوز کی تصدیق کے لیے ادائیگی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر غلط معلومات پر مبنی ہو سکتی ہیں۔