واشنگٹن کیسے افریقہ میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی جنگ ہار گیا
سیاست
8 منٹ پڑھنے
واشنگٹن کیسے افریقہ میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی جنگ ہار گیااوپر تلےامریکی انتظامیہ نے افریقہ کو ایک ترجیحی خطہ بنانے میں ناکام رہی جس کے پیش نظر چین کو اس براعظم میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے کافی وقت اور موقع مل گیا۔
امریکی وزیر خارجہ ایٹونی بلینکن نے جنوری میں اپنے افریقی دورے کے حصے کے طور پر لوآندا، انگولا کا دورہ کیا، امریکہ کو ایک اہم معاشی اور سیکیورٹی حلیف کے طور پر پیش کرتے ہوئے۔
28 فروری 2025

اوپر تلےامریکی انتظامیہ نے افریقہ کو ایک ترجیحی خطہ بنانے میں ناکام رہی  جس کے پیش نظر چین کو اس براعظم میں اپنا اثر رسوخ  بڑھانے کے لیے کافی وقت اور موقع مل گیا۔

سالہا سال  سے واشنگٹن کی افریقہ میں اقتصادی اثرات سست رہے ہیں۔ پابندیاں، کم ترجیحی پالیسیاں، محدود اقدامات، اور غیر مستحکم سرمایہ کاری کی سطحیں، امریکہ کو اس خطے میں مالی طور پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے  میں ناکامی کا موجب بنیں۔

اس بنا پر  امریکی صدر جو بائیڈن کے اینگولا کے غیر متوقع دورے سے معجزوں کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ دورہ، بائیڈن کے 2021 میں منصب سنبھالنے کے بعد افریقہ کا پہلا دورہ ہوگا۔

دورے کا وقت امریکی ترجیحات کے بارے میں ایک واضح پیغام دے رہا ہے: بائیڈن، پچھلے دس سالوں میں صحارا کے جنوبی افریقہ کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے دورے سے قبل ایک بیان میں کہا گیا ہے، "صدر کا لوآندا کا دورہ۔۔۔ امریکہ کی افریقہ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مسلسل وابستگی اور مشترکہ چیلنجز کو حل کرنے کے لیے تعاون،  نہ صرف امریکی عوام بلکہ پورے افریقی براعظم  کے عوام  کے  لیے  فائدہ مند رہنے کا مظہر  ہے۔"

بائیڈن کے دورے کا ایک مقصد چین کے انگولا اور اس کے ما حول میں بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرات کو محدود کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ تاہم چین کی اہم سرمایہ کاریوں اور مختلف ترقیاتی پیشکشوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ واشنگٹن نے یہ موقع کئی سال پہلے کھو دیا تھا۔

دونوں ممالک افریقہ کی نایاب معدنیات تک رسائی  کی دوڑ میں ہیں۔ چین خاص طور پر افریقہ کی تجارتی منڈیوں اور بندرگاہوں کو استعمال کرنے کو ہدف بناتا ہے، جبکہ واشنگٹن کے خطے میں مقاصد   جمہوری پیش رفت میں  گراوٹ  کا سد باب کرناا اور "ہم خیال" فوجی اور تجارتی شراکت داریوں کے نیٹ ورک کو قائم رکھنا ہے۔

سرمایہ کاری کا فقدان

واشنگٹن کو  افریقہ میں کثیر شعبہ جاتی سرمایہ کاریوں کو فروغ دینے میں مسلسل مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

صنعت سے لے کر زراعت تک، سبز سرمایہ کاریوں سے لے کر توانائی کے مالی اعانت تک چین افریقہ کی مستقبل کی ترقی کی ضروریات کے مرکز میں موجود شعبوں کو ترجیح دینے کا عمل جاری رکھے  ہوئے ہے۔ چین-افریقہ تعاون فورم (FOCAC) جیسے پلیٹ فارمز نے افریقہ کی مالی ضروریات کو چین کی ترقیاتی معاونت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بیجنگ کو افریقہ کی جدیدیت کے رہنما کے طور پر خود کو پیش کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

اس مرحلے پر، بائیڈن انتظامیہ کا اقتصادی اثر ناکافی ثابت ہوا ہے۔ توانائی کے شعبے میں، اگرچہ افریقہ میں قابل تجدید توانائی تک رسائی کے لیے لاکھوں ڈالر کی وعدے کیے گئے ہیں، لیکن سرمایہ کاری کی مقدار اس براعظم کی بڑھتی ہوئی توانائی سرمایہ کاری کی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی رہی ہے۔

دوسری طرف چین نے سبز توانائی کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور افریقہ کی ترقی میں فوری طور پر مدد دینے کے لیے ترجیحی قرضوں کا فائدہ اٹھایا ہے۔ واشنگٹن اگرچہ برسوں سے چین کی قرض دینے اور قرض پالیسیوں پر تنقید کرتا آ رہا ہے، لیکن افریقہ کی معیشتوں میں قرض کے بوجھ کے باوجود براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کو بڑھانے میں مشکل کا سامنا کر رہا ہے۔ اس صورتحال نے افریقہ کو چین کے اثرات کے قریب تر کر دیا ہے۔

سیاسی عدم استحکام

سیاسی عدم استحکام نے چین کے ساتھ مؤثر مقابلے کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بائیڈن انتخابات سے صرف 40 دن قبل انگولا کا دورہ کر رہے ہیں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نومبر میں دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کافی زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں، بائیڈن 2025 تک 55 ارب ڈالر کی کثیر شعبہ جاتی سرمایہ کاری منصوبے کو حقیقت میں بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب تک اس رقم میں سے  تقریباً 44 ارب ڈالر  کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔

ٹرمپ نے 2016 میں اپنے صدراتی دور میں افریقہ کا دورہ کرنے سے انکار کیا تھا اور افریقہ کے لیے صاف توانائی کی مالی معاونت اور سفارتی نقطہ نظر کو مسلسل حقیر جانا۔ ان کا افریقہ کے بارے میں پیغام واضح  تھا: افریقہ خارجہ پالیسی کی ترجیح نہیں ہے۔

دوسری طرف، چین کا اقتصادی اثر اس طرز کی حد بندیوں  سے مستثنیٰ ہے۔ اس ماہ بیجنگ میں ہونے والی FOCAC سربراہی کانفرنس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے اگلے تین سالوں کے لیے افریقہ کو تقریباً 51 ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرنے کا عہد کیا ہے، اور مستقل تجارتی پالیسیوں نے چین کو صحارا کے جنوبی افریقہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار  بنانے کا موقع دیا ہے۔

53 افریقی ممالک کے ساتھ باقاعدگی سے روابط قائم کرنے والا  چین براعظم میں دس لاکھ نئی ملازمتیں فراہم کرنے  جیسے اہم پالیسی اہداف کو پورا کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔ افریقہ کا چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کا دائرہ مدنظر رکھتے ہوئے، بائیڈن کو یہ فرضی مفروضہ چھوڑ دینا چاہیے کہ بیجنگ کا اس خطے میں بنیادی مقصد "امریکہ کے افریقی عوام اور حکومتوں کے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنا" ہے۔

یہ نقطہ نظر چین کے افریقہ میں اثر و رسوخ بنانے کی کوششوں کے بر خلاف ردعمل کا مظہر  ہے اور اس میں امریکہ-افریقہ تعلقات کو اپنے سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت کو نظر انداز کرتا ہے۔

PGII اور بیلٹ اینڈ روڈ کی موازنہ

بائیڈن کا لوآندا کا دورہ کرنے کا فیصلہ ایک سوچا سمجھا قدم ہے۔

انگولا، امریکہ کی حمایت یافتہ عالمی انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری شراکت داری (PGII) کی اہم پروجیکٹس میں سے ایک، لوبيتو کوریڈور کا مرکز ہے۔

یہ کوریڈور انگولا کے لوبيتو پورٹ کو جمہوریہ کانگواور زامبیا کے درمیان ریلوے کنکشن کو مضبوط بنانے کا مقصد رکھتا ہے اور افریقہ میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے مقابلے میں ایک توازن پیدا کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تاہم، BRI کی محدود کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ابتدا میں، بائیڈن PGII کے تحت جن ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے ان  کا توجہ سے انتخاب کیا گیا ہے۔  ان کی انتظامیہ انگولا، DKC، تنزانیہ اور زامبیا کے ساتھ مشاورت کو ترجیح دیتی ہے، جبکہ 52 افریقی ممالک BRI کے تحت فعال طور پر شامل ہیں۔

PGII کی علاقائی کشش  کو بڑھانے کے لیے، بائیڈن کو مغرب کے اقدامات کے بارے میں افریقہ کے تحفظات کو بھی دور کرنا چاہیے۔ اس میں یہ مطالبات شامل ہیں کہ اریٹیریا، جنوبی سوڈان، سوڈان اور زمبابوے کے خلاف "طویل مدتی پابندیاں" ہٹا دی جائیں تاکہ ان کی سماجی ترقی میں مدد مل سکے۔

بائیڈن  کے لیے افریقہ کے اپنے پہلے دورے پر امریکی ترقی کی ترجیحات سے پسماندہ محسوس کرنے والے ممالک کو ترجیح دینا زیادہ بہتر تھا۔ متنازعہ پابندیوں کے خلاف ٹھوس مؤقف اختیار کرنا افریقی یونین (AU) ریاستوں سے زیادہ اعتماد حاصل کرنے اور امر یکہ کے "براعظم افریقہ میں  مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے" میں سنجیدہ  ہونے  کا مظاہرہ کرنے کےلیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

AU علاقائی ترقی کی ترجیحات اور اقتصادی انضمام کے امکانات کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ واشنگٹن معیشت، غذائی تحفظ، صحت، آب و ہوا اور اچھی انتظامیہ جیسے  معاملات میں امریکہ-افریقہ تعاون کو گہرا کرنے کے لیے AU پر بھی انحصار کرتا ہے۔

PGII کی دوسری رکاوٹ بین البراعظمی رابطہ اور توانائی کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ نہ ہی تنہائی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

واشنگٹن کو PGII کے علاقائی توانائی اور عالمی تجارتی ایجنڈے کے مرکز میں کم ترقی یافتہ افریقی ممالک کو رکھنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ لوبیٹو کوریڈور انگولا کی بندرگاہ کے ذریعے بین الاقوامی تجارت اور معدنیات تک رسائی کا تصور کرتا ہے، یہ معدنیات کی اہم سپلائی چین سے باہر دیگر افریقی ممالک کو محدود فائدہ فراہم کرتا ہے۔

یہ PGII کے لیے ایک اسٹریٹجک کمزوری کی نمائندگی کرتا ہے، کیونکہ اس کے ٹرانسپورٹ روابط افریقہ میں اہم معدنیات تک رسائی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ جب تک واشنگٹن تیز رفتار ریلوے، بندرگاہ کی ترقی، ملٹی موڈل نقل و حمل کے نیٹ ورکس اور توانائی پیدا کرنے کے بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں BRI کے ساتھ مسابقت کو بڑھانے کا فیصلہ نہیں کرتا، اسے اپنے حق میں اقتصادی اثر و رسوخ کو تبدیل کرنے اور چین کے اسٹریٹجک شراکت داروں کو اپنے مدار میں لانے میں مشکل وقت پڑے گا۔

بائیڈن کے انگولا کے دورے سے اثر و رسوخ پیدا کرنے کی چین کی کوششوں پر اثر انداز ہونے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ افریقہ میں امریکی کثیر شعبوں کی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی تجاویز پر پابندیاں ہیں۔

یہ محض وسائل سے مالا مال اس ریاست کا دورہ کرنے کے طویل عرصے سے ٹوٹے ہوئے وعدے کی تکمیل ہے، اور ترقیاتی تعاون صرف چند افریقی ممالک تک محدود ہے۔

 

 

دریافت کیجیے
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
صدر ایردوان کا لبنان میں فائر بندی کا خیر مقدم
جارجیا  کی آئینی عدالت  نے صدر کی انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی
جنوبی کوریا ئی پارلیمانی نمائندوں  نے صدر کے مارشل لا کے اعلان کو مسترد کر دیا
مارشل لا بحران: جنوبی کوریا میں یون مواخذے  سے دو چار
نیپال اور چین کے درمیان  بیلٹ اینڈ روڈ پلان کے فریم ورک  کامعاہدہ
"کوپ کوپ" چاڈ میں فرانسیسی قتل عام کی داستاں
رہائی پانے والے قیدی کی شامی جیل میں سلوک کی روداد
عالمی سائنس دانوں کا غزہ میں جنگ رکوانے کےلیے کھلا خط
2024 برکس کے عروج کے لئے ایک اہم موڑ کیوں ہے
شولز کی معزولی کے بعد جرمنی ایک دوراہے پر
تنازعہ اسرائیل۔ فلسطین کی تاریخ میں 7 اکتوبر کی اہمیت
TRT Global پر ایک نظر ڈالیں۔ اپنی رائے کا اظہار کریں!
Contact us