بھارت کی نئی تعلیمی پالیسی نے زبان اور حکمرانی کے حوالے سے ایک پرانے تنازعے کو دوبارہ سے جانبر کر دیا ہے، جس میں جنوبی ریاست تامل ناڈو کی جانب سے ہندی کے نفاذ کے خلاف شدید مزاحمت سامنے آئی ہے۔
یہ تنازعہ کثیرالسانیت، وفاقیت اور قومی شناخت جیسے وسیع تر سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ بحث اس وقت چھڑی جب گزشتہ ماہ سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے ایک پالیسی مسودہ پیش کیا، جس میں 2025-26 سے دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات سال میں دو بار منعقد کرنے کی تجویز دی گئی۔ اس مسودے میں زبان کے مضامین کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے۔ سی بی ایس ای کے مسودے اور سی بی ایس ای کی سرکاری ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات کے زبان کے مضامین میں 2024-2025 کے موجودہ نصاب کے مقابلے میں تبدیلی کی گئی ہے۔
دسویں جماعت کے پالیسی بل ، انگریزی اور ہندی کو زبان 1 اور زبان 2 کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، جبکہ دیگر علاقائی اور غیر ملکی زبانوں کو علاقائی اور غیر ملکی زبانوں کے گروپ میں شامل کیا گیا ہے۔
تاریخی پس منظر: بھارت کی لسانی تنوع
بھارت میں 1,300 سے زائد زبانیں یا بولیاں بولی جاتی ہیں، جن میں سے 22 کو آئین کے تحت سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ ہندی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، لیکن یہ صرف 44 فیصد بھارتیوں کی مادری زبان ہے۔
تامل ناڈو، جو بھارت کی جنوبی ترین ریاست ہے، نے قومی سطح پر ہندی کو فروغ دینے کی کوششوں کی اپنی دراوڑی لسانی ورثے کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے طویل عرصے سے مزاحمت کی ہے۔
یہ مزاحمت 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی، جب تامل ناڈو میں وسیع پیمانے پر احتجاج نے بھارتی حکومت کو یہ پالیسی اپنانے پر مجبور کیا کہ انگریزی، ہندی کے ساتھ ساتھ، ایک سرکاری زبان کے طور پر جاری رہے گی۔ یہ سمجھوتہ کئی دہائیوں تک برقرار رہا، لیکن نئے حکومتی اقدامات نے ایک بار پھر کشیدگی کو جنم دیا ہے۔
موجودہ تنازعہ: قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور زبان
یہ بحث قومی تعلیمی پالیسی 2020 (این ای پی 2020) اور حالیہ حکومتی ہدایت کے ساتھ دوبارہ ابھری، جس میں تعلیمی منصوبوں کے لیے مرکزی فنڈنگ کو ہندی زبان کے اداروں کو ترجیح دینے کی شرط رکھی گئی ہے۔
تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ غیر ہندی بولنے والی ریاستوں کے حقوق کو کمزور کرتا ہے۔
مرکزی حکومت، جس کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کر رہی ہے، کا کہنا ہے کہ ہندی کو فروغ دینا قومی اتحاد کو مضبوط کرتا ہے اور روزگار کے مواقع کو بہتر بناتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ غیر ہندی بولنے والوں کو خاص طور پر وفاقی حکومت کی ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیم میں نقصان پہنچاتا ہے۔
تامل ناڈو نے وفاقی حکومت پر 247 ملین ڈالر کی تعلیمی فنڈز روکنے کا الزام لگایا ہے، کیونکہ اس نے قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے وزیر اعظم نریندر مودی سے "تامل ناڈو کو ڈرا دھمکا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا" کہتے ہوئے فنڈز جاری کرنے کی اپیل کی۔
اس ہفتے کے شروع میں، یہ تنازعہ پارلیمنٹ میں شدت اختیار کر گیا، جب مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے اسٹالن کی پارٹی دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پر "اشتعال انگیزی کرنے" اور "غیر جمہوری اور غیر مہذب" ہونے کا الزام لگایا، جس پر تامل ناڈو کی حکمران پارٹی نے احتجاج کیا۔
وفاقیت اور شناخت کا مسئلہ
اس مسئلے کے مرکز میں وفاقیت ہے—مرکزی اختیار اور ریاستی خودمختاری کے درمیان توازن۔ تامل ناڈو کی مخالفت لسانی اور ثقافتی غلبے کے خدشات پر مبنی ہے، جو دیگر کثیرالسانی جمہوریتوں جیسے کینیڈا (فرانسیسی بمقابلہ انگریزی) اور بیلجیم (ڈچ بمقابلہ فرانسیسی) میں بھی گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں۔
تامل ناڈو کی ہندی کے خلاف مزاحمت 1937 میں شروع ہوئی، جب سماجی مصلح پیریار کی قیادت میں احتجاج نے اس وقت کی مدراس حکومت کو اسکولوں میں ہندی کو لازمی قرار دینے سے روک دیا۔ 1965 میں یہ تحریک شدت اختیار کر گئی، جس کے نتیجے میں ریاست میں کانگریس کی حکمرانی ختم ہو گئی اور تامل ناڈو کی سخت گیر دو زبانوں کی پالیسی—تامل اور انگریزی—قائم ہو گئی، جو بھارت کے دیگر حصوں میں اپنائے گئے تین زبانوں کے فارمولے کے برعکس ہے۔
یہ بحث قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے ساتھ دوبارہ چھڑی ، جو تین زبانوں کی سفارش کرتی ہے، جن "بھارت کی دو مقامی زبانیں" بھی شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کا کہنا ہے کہ یہ ہندی کے نفاذ کا باعث بنے گا، جس سے تامل مخالفت مزید زور پکڑ لے گی۔
تعلیمی ماہر ڈاکٹر وی نیرنجنارادھیا کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنوبی بھارتی ریاستوں نے تین زبانوں کے فارمولے پر عمل کیا—جس میں ہندی بھی شامل ہے—شمالی بھارت نے جنوبی بھارتی زبان سیکھنے کی اپنی ذمہ داری کو بڑی حد تک نظر انداز کیا، جس سے یہ پالیسی "ناکام" ہو گئی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ "دنیا کثیرالسانیت کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہاں ہم اب بھی ایک زبان کو مسلط کر نے کے درپے ہیں۔"
تامل ناڈو کو خدشہ ہے کہ یہ پالیسی ہندی بولنے والی ریاستوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، جس سے عدم مساوات میں اضافہ ہو گا۔ یہ تنازعہ نہ صرف تعلیمی خدشات کا عکاس ہے بلکہ مرکزیت کے مقابلے میں علاقائی خودمختاری کے وسیع تر خدشات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
عالمی موازنہ: زبان اور تعلیمی پالیسیاں
بھارت کے لسانی چیلنجز دیگر کثیرالسانی ممالک میں ہونے والی بحثوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کینیڈا میں، کیوبیک نے انگریزی کے غلبے کے خلاف فرانسیسی زبان کا سختی سے تحفظ کیاہے۔ سوئٹزرلینڈ میں، چار سرکاری زبانیں محتاط وفاقی پالیسیوں کے ذریعے بیک وقت موجود ہیں ، جو کسی ایک زبان کو دوسرے پر ترجیح دینے سے گریز کرتی ہیں۔
بھارت کا چیلنج اپنی وسعت کی وجہ سے منفرد ہے، لیکن بنیادی اصول وہی رہتا ہے: ایک کثیرالسانی قوم کسی گروہ کو حاشیے پر ڈالے بغیر کیسے مساوی تعلیم اور حکمرانی کو یقینی بنا سکتی ہے ؟
یونیسکو کی ایک رپورٹ کثیرالسانی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "بچے اپنی مادری زبان میں سب سے بہتر سیکھتے ہیں۔" ایسی پالیسیاں جو ایک زبان کو دیگر زبانوں پر ترجیح دیتی ہیں، سیکھنے کے نتائج کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور لاکھوں طلباء کے مواقع کو محدود کر سکتی ہیں۔
اب کیا ہوگا؟
تامل ناڈو بھارت میں زبان کی مزاحمت کی قیادت کر رہا ہے، اور یہ بحث جلد ختم ہونے والی نہیں۔ مرکزی حکومت کو شاید اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی پڑے تاکہ لسانی علاقوں میں تعلیمی مساوات کو یقینی بنایا جا سکے۔ وسیع تر سوال یہ ہے: کیا بھارت اپنی قومی یکجہتی کو اپنی بھرپور لسانی تنوع کے ساتھ متوازن کر سکتا ہے؟
فی الحال، یہ تنازعہ تمام کثیرالسانی معاشروں کو درپیش ایک بنیادی مسئلے کو اجاگر کرتا ہے— قومی شناخت کو کمزور نہ بنانے کے لیے لسانی تنوع کو اس طرح کیسے اپنایا جائے ۔