امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کو قطر کے مختصر دورے کو امریکی فوجیوں سے خطاب پر ختم کریں گے اور اس کے بعد متحدہ عرب امارات روانہ ہو جائیں گے۔یہ امیر خلیجی ملک مصنوعی ذہانت کے میدان میں عالمی لیڈر بننے کے لئے امریکہ سے مدد کا امیدوار ہے۔
بدھ کے روز جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے ۔ معاہدے کی رُو سے امارات کو ہر سال 500,000 جدید ترین Nvidia AI چپس درآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی، اور یہ عمل اس سال سے شروع ہو جائے گا۔
یہ معاہدہ ملک میں ، مصنوعی ذہانت کے ماڈلوں کی ترقی کے لیے، ضروری ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کو فروغ دے گا ۔ تاہم، اس معاہدے نے امریکی حکومت کے کچھ حلقوں میں قومی سلامتی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق معاہدے کی شرائط میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کے چار روزہ خلیجی دورے کے دوران کئی کاروباری معاہدے طے پائے ہیں، جن میں قطر ایئرویز کا بوئنگ 210 وائیڈ باڈی جیٹ طیارے خریدنے کا معاہدہ، سعودی عرب کی جانب سے امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ اور سعودی عرب کو 142 ارب ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی فروخت شامل ہیں۔
مصنوعی ذہانت پر توجہ
یہ دورہ سفارتی سرگرمیوں سے بھی بھرپور رہا۔ منگل کو ٹرمپ نے حیران کن اعلان کیا ہےکہ امریکہ شام پر عائد دیرینہ پابندیاں ہٹا دے گا، اور اس کے بعد انہوں نے شام کے صدر احمد الشراع سے ملاقات بھی کی ہے۔
جمعرات کو ٹرمپ دوحہ کے جنوب مغرب میں صحرا میں واقع العدید ایئر بیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کریں گے، جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سب سے بڑی فوجی تنصیب ہے۔ اس کے بعد وہ ابوظہبی روانہ ہوں گے جہاں وہ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ کے دورے کے آخری مرحلے میں توقع ہے کہ مصنوعی ذہانت پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔
سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں کو امریکی AI چپس کی برآمدات پر سخت نگرانی عائد کی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ یہ قیمتی سیمی کنڈکٹرز چین کو منتقل ہو سکتے ہیں اور بیجنگ کی فوجی طاقت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا اہم ترین مقصد خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ اگر خلیجی ریاستوں، خاص طور پر متحدہ عرب امارات، میں تجویز کردہ چِپ معاہدے مکمل ہو جاتے ہیں، تو یہ خطہ عالمی AI مقابلے میں امریکہ اور چین کے بعد تیسرا طاقتور مرکز بن سکتا ہے۔