ترکیہ
5 منٹ پڑھنے
ترک وزیر خارجہ نے ایران اور امریکہ کے درمیان مستقل معاہدے کی ضرورت پر زور دیا
''ابھی ایک خاموشی کا دور ہے۔ تاہم، اس کو مستقل بنانے کے لیے ایک معاہدے پر پہنچنا ضروری ہے،'' تر
ترک وزیر خارجہ نے ایران اور امریکہ کے درمیان مستقل معاہدے کی ضرورت پر زور دیا
Turkish foreign minister emphasizes need for Iran, US permanent agreement / Reuters
10 گھنٹے قبل

ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے ایران اور امریکہ کے درمیان معاہدے کی ضرورت پر زور دیا ہے، کیونکہ دونوں ممالک فضائی حملوں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد مذاکرات میں شامل ہونے کے خواہاں  ہیں۔

اسرائیل کے ایران پر حملوں سے شروع ہونے  والی جھڑپوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، فیدان نے کہا، "جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہم خطے  کی تمام پیش رفت کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔ اکثر اوقات، ہم ثالث کا کام کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارے اور ہمارے خطے کے مفاد میں ہے کہ جنگیں نہ ہوں اور موجودہ جنگیں ختم ہوں۔"

انہوں نے کہا کہ غزہ پر حملوں کے ابتدائی ایام میں   میں نے  کہا تھا کہ "ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ  کا خطرہ ہے ، اسرائیل کے ایران پر حملے نے ایران کو جائز دفاع کی پوزیشن میں دھکیل دیا، اور یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل اتنا طاقتور نہیں جتنا کہ وہ ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے حوالے سے دعویٰ کرتا ہے۔" اس پیش رفت نے  اس کی کمزوری کو  عیاں کر دیا ہے۔

فیدان نے نوٹ کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اندرونی سیاسی اقدامات نے بھی اسرائیلی خارجہ پالیسی میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ پوری  دنیا نے دیکھ لیا  کہ "وہاں ایک ایسی سیاسی سوچ ہے جو اپنے مفادات کے لیے خطے کو آگ میں جھونکنے سے نہیں ہچکچاتی۔"

فیدان نے کہا، "یہ جنگ 12 دن کے بعد عارضی طور پر روک دی گئی ہے، لیکن یہ جنگ بندی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ جوہری صلاحیتوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ خطے کو جنگ بندی کے ٹوٹنے اور باہمی حملوں کے دوبارہ شروع ہونے کے امکان کے خلاف چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔"

بھاری قیمت

فیدان نے زور دیا کہ جنگ نے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے  کو مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، "جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان 1,000 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے، اور کوئی سرحد نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ ایک ایسی جنگ ہے جو سرحدوں کو عبور کرتی ہے اور مختلف ممالک کو شامل کرتی ہے۔ فی الحال خاموشی کا دور  چل رہا ہے، لیکن اس کو مزید مستقل بنانے کے لیے ایران اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ضروری ہے۔"

فیدان نے کہا کہ جوہری مسئلہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری عمل کا صرف ایک پہلو ہے، اور اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا، "یہ واضح ہے کہ امریکہ کی جانب سے کیے گئے فوجی آپریشن کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات کو بڑی حد تک نقصان پہنچا ہے اور وہ ناقابل استعمال ہو گئی ہیں۔"

فیدان نے تسلیم کیا کہ جوہری پروگرام کے کئی اجزاء ہیں اور تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

فیدان نے  ایک سوال کہ کیا انہیں اسرائیل کے ایران پر حملے کی رات امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی کال موصول ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ "ایسی گفتگو ہوئی تھی۔"

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ "چونکہ انہوں نے حملے میں حصہ نہیں لیا، اس لیے ان کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے، اور اس لیے ایرانیوں کو ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیے، اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ سخت جواب دیں گے۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے "خطے میں امریکی  وجود کے تحفظ کے حوالے سے اپنی تشویش کے بارے میں کچھ مسائل  کو زیرِ لب لایا ہے۔"

فیدان نے کہا کہ امریکہ نے پھر ایرانیوں سے رابطہ کیا اور یہ پیغام دیا کہ "اگر حملہ ہوا تو امریکہ کوئی کردار ادا نہیں کرے گا،  لہذا  وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ ثالث کا کردار ادا کرتے وقت  جنگ میں مداخلت کرے ۔"

اس دعوے کے بارے میں کہ ٹرمپ اور ایرانی صدر مسعود پزیشکیان ترکیہ میں ملاقات کریں گے، فیدان نے کہا، "میں یہ کہہ سکتا ہوں: ہمارے صدر کی قیادت پر اعتماد کی وجہ سے، سب سے اعلیٰ تجاویز اور حالات ایجنڈے میں لائے گئے، لیکن میں ان پر تبصرہ نہیں کروں گا۔"

کوئی کسی پر اعتماد نہیں کرتا

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل کے ایران پر حملوں کے بعد امریکہ اس صورتحال میں شامل ہوگا اور کیا عراقچی 21 جون کو ترکیہ میں اس معاملے پر اپنا پہلا بیان دیں گے، فیدان نے کہا، "جب ہم نے ہفتے کو اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی، تو امریکہ جنگ  کا حصہ نہیں  تھا۔

انہوں نے کہا، "اگلے دن، جب  میں نے اپنے ایرانی ہم منصب  سے بات کی، تو ہماری بنیادی نصیحت یہ تھی کہ سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ امریکیوں کے ارادے کیا ہیں۔ کیا یہ مکمل طور پر تباہ کن جنگ ہے، یا یہ جوہری تنصیبات تک محدود ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ جوہری تنصیبات تک محدود ہے۔

یہ ایران کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جیسا کہ پہلے بھی دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا: 'اگر یہ کاروائی محدود رہتی ہے، تو ہمارا جواب بھی محدود ہوگا۔'

یہ ایک اہم پیغام تھا۔ ہم نے یہ پیغام پہنچایا۔ ظاہر ہے، ایران نے اس پر اندرونی طور پر بات چیت کی۔ وہ ایک نتیجے پر پہنچے۔ اور پھر، جیسا کہ ٹرمپ نے خود اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا، باہمی رابطے اور معاہدے کے ذریعے، یہ معاملہ بن گیا کہ 'آپ  مجھے نشانہ بنائیں، میں آپ  کو نشانہ بناوں گا، لیکن میں خود کو اسی جگہ تک محدود رکھوں گا۔'

فیدان نے کہا کہ ایران کے جوہری وسائل پر برسوں پہلےرائے دہی  کے نتیجے میں پابندیاں عائد کی گئیں، اور کہا، "ایک اور توازن بھی ہے: پانچ مستقل اراکین سب جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں، اور موجودہ صورتحال میں ان کے لیے کسی بات پر متفق ہونا ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا، "تاہم، وہ اس بات پر متفق ہیں کہ کسی چھٹے ملک کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ لیکن تعداد کو چار، تین، یا دو تک کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے۔ کیونکہ،  بالا آخر کوئی کسی پر اعتماد نہیں کرتا۔"

 ت

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us