عالمی برادری نے اسرائیل کے ایران پر بڑے پیمانے پر فوجی حملوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
یہ کشیدگی اقوام متحدہ، بڑی عالمی طاقتوں اور خطے کے دیگر نمایاں ممالک کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر تنازعے کے خطرے کے پیش نظر فوری طور پر کشیدگی کم کرنے اور تحمل کی اپیلوں کا باعث بنی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جمعرات کی رات ایک بیان جاری کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی فوج کے ایرانی مقامات پر حملوں کے درمیان کشیدگی کی مذمت کی۔
گوتریس کے ترجمان فرحان حق کے بیان کے مطابق، "سیکریٹری جنرل مشرق وسطیٰ میں کسی بھی فوجی کشیدگی کی مذمت کرتے ہیں۔"
بیان میں کہا گیا کہ گوتریس "ایران کے جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں سے خاص طور پر فکرمند ہیں، جبکہ ایران اور امریکہ کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کی حیثیت پر بات چیت جاری ہے۔"
اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق عمل کرنے کی یاد دہانی کراتے ہوئے، بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ "دونوں فریقین سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں، اور کسی بھی قیمت پر گہرے تنازعے سے باز رہنے کی درخواست کرتے ہیں۔"
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یوٹیوب پر ایک تقریر میں کہا کہ ان کی افواج نے "ایران کے جوہری افزودگی پروگرام کے مرکز کو نشانہ بنایا۔ ہم نے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے مرکز پر حملہ کیا ہے۔"
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اسرائیل کو "سخت سزا" دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
خامنہ ای نے کہا"صیہونی حکومت نے آج صبح ہمارے عزیز ملک میں اپنی شیطانی، خون آلود ہاتھوں سے جرم کیا ہے۔ اس نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا کر اپنی بدنیتی کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا ہے۔"
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے اسرائیل کے ایران پر رات کے حملوں کو 'خطرناک لمحہ' قرار دیتے ہوئے تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
سعودی عرب، جو تقریباً دو سال قبل تہران کے ساتھ صلح کرنے سے پہلے اس کا حریف تھا، نے بھی اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا"سعودی عرب اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت اور مخالفت کرتا ہے، جو اس کی خودمختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہے اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایران بڑے پیمانے پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد مذاکرات کی میز پر واپس آئے ۔
فاکس نیوز چینل کی چیف نیشنل سیکیورٹی رپورٹر جینیفر گرفن نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ ان کی ٹیم نے اسرائیلی حملوں کے حوالے سے ٹرمپ سےسوالات کیے ہیں ، جن کے جواب میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ "ایران کے پاس جوہری بم نہیں ہونا چاہیے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ حملوں سے پہلے ان سے آگاہ تھے لیکن اس بات پر زور دیا کہ اس میں امریکی فوجی مداخلت شامل نہیں تھی۔
امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے کیونکہ ٹرمپ دیکھ رہے ہیں کہ آیا کوئی جوابی کارروائی ہوتی ہے، ایسی صورت میں امریکہ ایران کے خلاف اپنے اور اسرائیل کے دفاع کے لیے تیار ہوگا۔
انتظامیہ کے عہدیداروں کے مطابق، امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائلوں کو دوبارہ بھر دیا ہے۔
جاپان نے اسرائیل کے ایران پر فضائی حملوں کی شدید مذمت کی ہے، وزیر خارجہ تاکیشی ایوایا نے جمعہ کو ٹوکیو میں صحافیوں کو بتایا، اور تمام فریقوں سے تحمل کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا"ہم اس تازہ ترین کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہیں جو صورتحال کو مزید کشیدہ کرتی ہے،"
"مشرق وسطیٰ کے خطے میں امن و استحکام جاپان کے لیے انتہائی اہم ہیں، اور ہم تمام فریقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو پرسکون کریں۔"
اردن نے کہا کہ وہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گا۔
حکومت کے ترجمان اور وزیر برائے حکومتی مواصلات محمد المومنی نے کہا کہ " ہم نہیں چاہتے کہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہو، اور یہ کسی بھی تنازعے کے لیے میدان جنگ نہیں بنے گی۔"
المومنی نے کہا"وطن کی سلامتی ایک سرخ لکیر ہے" مملکت کسی بھی ایسی کوشش کی اجازت نہیں ے گی جو اس کی سلامتی اور شہریوں کی حفاظت کو خطرے میں ڈالے۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ متعلقہ فریقوں پر دباؤ ڈالے تاکہ "خطے میں امن بحال ہو اور مزید کشیدگی کو روکا جا سکے۔"
عمان، جو ایران-امریکہ جوہری مذاکرات میں ایک اہم ثالث ہے، نے خبردار کیا کہ اسرائیلی حملہ "سفارتی حل کو ختم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔"
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے جمعہ کو اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ ان کا ملک ان پیش رفتوں سے "پریشان" ہے۔
آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ABC) نے رپورٹ کیا ہے کہ انہوں نے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ "ایسے اقدامات اور بیانات سے گریز کریں جو مزید عدم استحکام کا خطرہ پیدا کریں۔"
"ہم سب ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے خطرے کو سمجھتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اور ہم فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات اور سفارت کاری کو ترجیح دیں۔"
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا کہ ان کا ملک کشیدگی میں اضافے سے شدید پریشان ہے، اور خبردار کیا کہ کسی بھی مزید جوابی کارروائی سے "خطے میں جنگ کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔"
پیٹرز نے ایک پوسٹ میں کہا"یہ مشرق وسطیٰ میں تباہ کن نتائج کا باعث بنے گا۔"
"یہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام فریق کشیدگی کو کم کرنے کو ترجیح دیں۔ خطے کی سلامتی کا بہترین راستہ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات ہیں۔"
"ہم نے حکام سے کہا ہے کہ وہ یہ پیغامات فوری اور براہ راست نیوزی لینڈ میں اسرائیل اور ایران کے سفیروں تک پہنچائیں۔"
پیٹرز نے کہا کہ نیوزی لینڈ ایران میں اپنے عملے کی حفاظت اور وسیع تر خطے میں نیوزی لینڈ کے شہریوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
تہران میں چینی سفارت خانے نے ایران کی تازہ ترین سلامتی کی صورتحال کو "سنگین اور پیچیدہ" قرار دیتے ہوئے اپنے شہریوں اور کاروباروں کو صورتحال کی نگرانی کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے سفارت خانے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ "ایران میں چینی شہریوں اور کاروباروں کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ صورتحال پر قریبی نظر رکھیں، اپنی حفاظت کے بارے میں آگاہی بڑھائیں، اور حفاظتی اقدامات کو مضبوط کریں۔"