چین نے جمعہ کے روز جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ ہم، محصولات پر مذاکرات کے موضوع پر،امریکی پیشکش کا جائزہ لے رہے ہیں۔ لیکن واشنگٹن کو پہلے ان محصولات کو ختم کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے جن کی وجہ سے عالمی منڈیاں اور رسدی زنجیریں متاثر ہو رہی ہیں اس کے بعد ہی بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔
امریکی محصولات، جو کئی چینی مصنوعات پر 145 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، اپریل میں نافذ ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں بیجنگ نے امریکہ سے درآمدات پر 125 فیصد نئے محصولات عائد کر دیئے تھے۔
اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کی مصنوعات جیسے اسمارٹ فونوں، سیمی کنڈکٹر وں اور کمپیوٹروں کو امریکی محصولات سے عارضی چھوٹ دی گئی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی طرف سے محصولات پر مذاکرات کے لیے رابطے کے بارہا دعوے کے بعد رواں ہفتے جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ کسی معاہدے کا 'بہت اچھا موقع' ہے۔
جمعہ کو، بیجنگ وزارت تجارت نے جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ رابطہ کرنے والا فریق خود امریکہ تھا اورہم 'فی الحال پیشکش کا جائزہ لے رہے ہیں۔لیکن کسی بھی بات چیت کے لیے پہلے امریکی فریق کی جانب سے رعایتیں ضروری ہیں۔
وزارت نے کہا ہے کہ اگر امریکہ بات کرنا چاہتا ہے، تو اسے سنجیدگی دکھانی چاہیے، اپنی غلط پالیسیوں کو درست کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور یکطرفہ محصولات کو ختم کرنا چاہیے۔ بیان میں نے مزید کہا گیا ہے کہ 'کسی بھی ممکنہ مکالمے یا بات چیت میں، اگر امریکی فریق اپنی غلط یکطرفہ محصولاتی اقدامات کو درست نہیں کرتا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکی فریق مکمل طور پر غیر سنجیدہ ہے اوراس سے دونوں فریقوں کے درمیان باہمی اعتماد کو مزید نقصان پہنچائے گا۔
وزارت تجارت نے کہا ہے کہ "ایک بات کہنا اور دوسری کرنا یا پھر بات چیت کے بہانے دباؤ ڈالنے اور بلیک میل کرنے کی کوشش کرنا یہ طرزِ عمل کسی کام نہیں آئے گا"۔
شنگھائی کی فوڈان یونیورسٹی کے سینٹر فار امریکن اسٹڈیز کے ڈائریکٹر وو شنبو نے کہا ہےکہ بیجنگ ممکنہ طور پر سخت رویہ اپنائے گا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ 'یقیناً امریکہ چاہتا ہے کہ مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں، لیکن ہمارا موقف یہ ہے'آپ کو پہلے کچھ اقدام کرنا ہں گے تاکہ آپ کی سنجیدگی دیکھی جا سکے۔ امریکہ کی طرف سے چین پر محصولات ختم ہونے کی صورت میں ہم اپنے جائز خدشات پر بات کر سکتے ہیں۔ ان خدشات میں واشنگٹن کی غیر متوازن دو طرفہ تجارت اور بیجنگ کی، امریکن ٹیکنالوجک ترقی کو دبانے کی کوششوں پرشکایات شامل ہیں"۔
درجنوں ممالک کا جولائی میں ختم ہونے والی 90 روزہ ڈیڈ لائن کے دوران واشنگٹن کے ساتھ کوئی معاہدہ کرکے بلند نرخوں والے محصولات سے بچنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس، بیجنگ نے ،ضرورت پڑنے پر تجارتی جنگ کو آخری حد تک لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ اس ہفتے وزارت خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں عہد کیا گیا کہ 'کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے جائیں گے!'
وزارت تجارت نے جمعہ کو کہا ہے کہ 'چین کا مؤقف ہمیشہ بالکل واضح رہا ہے۔ اگر لڑائی ہے، تو ہم آخر تک لڑیں گے؛ اگر بات چیت ہے، تو بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔ محصولات کی جنگ اور تجارتی جنگ یکطرفہ طور پر امریکی فریق نے شروع کی تھی۔'
چین نے تسلیم کیا ہے کہ عالمی اقتصادی تبدیلیوں نے اس کی معیشت کو متاثر کیا ہے، جو طویل عرصے سے برآمدات پر منحصر ہے، اور حکام نے اعتراف کیا ہے کہ بیرونی منڈیوں کا سامنا کرنے والی کمپنیاں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
اس ہفتے کے اعداد و شمار نے ظاہر کیا ہےکہ اپریل میں پیداواری سرگرمیاں سکڑ گئی ہیں۔بیجنگ نے عالمی معیشت میں 'تیز تبدیلی' کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بدھ کو اعداد و شمار نے ظاہر کیا کہ امریکی معیشت سال کے پہلے تین مہینوں میں غیر متوقع طور پر سکڑ گئی ہے اور ٹرمپ کے محصولاتی منصوبوں نے درآمدات میں اضافے کو جنم دیا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے جا ایان چونگ نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اگرچہ دونوں فریقوں کے لیے معاہدہ ایک اقتصادی ضرورت بنتا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی فریق کمزور نظر آنا نہیں چاہتا۔'
ایس پی آئی ایسٹ مینجمنٹ کے تجزیہ کار اسٹیفن انز نے کہا ہےکہ بیجنگ کے جمعہ کے بیانات، طویل تجارتی جنگ میں 'پہلی شاخِ زیتون 'کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے ایک نوٹ میں لکھا ہے کہ 'کاغذ پر تو دونوں دارالحکومت امن کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ لیکن گہرائی میں جائیں تو راستہ ابھی بھی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے۔' چین نے 'آخر تک لڑنے' کے اعلان کو ختم نہیں کیا صرف نرم الفاظ کے پیچھے چھپا دیا ہے۔دوسری طرف 'پہلے محصولات ختم کریں' کا مطالبہ وائٹ ہاؤس کے لیے ناقابل قبول ہے۔
ایشیائی منڈیوں کی تازہ صورتحال:
چین کی طرف سے، محصولات پر مذاکرات کے لیے امریکی پیشکش پر غور کرنے سے متعلق ، بیان جاری کئے جانے کے بعد وال اسٹریٹ سمیت ایشیائی منڈیوں نے جمعہ کو دن کا آغاز بڑھوتی سے کیا ہے۔
جمعرات کو ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں مائیکروسافٹ اور میٹا کے مضبوط مالی نتائج کے بعد اقتصادی اندیشوں میں توازن آیا اور امریکی منڈیوں میں بھڑوتی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایپل نے پہلی سہ ماہی کا منافع توقعات سے زیادہ رپورٹ کیا لیکن خبردار کیا ہےکہ امریکی محصولات رسدی زنجیر میں خلل ڈالنے کی وجہ سے کمپنی کے لیے مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں ۔
ایمازون نے پہلی سہ ماہی کی آمدنی میں نو فیصد اضافہ رپورٹ کیا ہے لیکن امریکہ-چین تجارتی جنگ کے ممکنہ اثرات سے پریشان سرمایہ کاروں کی وجہ سے، اس کے مستقبل کے امکانات کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔
ایشیائی تجارت میں جمعہ کو، ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس صبح کے وقت ایک فیصد سے زیادہ بڑھ گیا، جبکہ جاپان کا مرکزی نکی انڈیکس تقریباً 0.6 فیصد بڑھا۔
جاپان کے امریکی محصولات پر مذاکرات کے لیے ایلچی نے جمعرات کو واشنگٹن میں کہا ہےکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور 'صاف اور تعمیری' تھا۔
جاپان، جو امریکہ کا کلیدی اتحادی اور سب سے بڑا سرمایہ کار ہے، ان ہی 10 فیصد بنیادی محصولات کے تابع ہے جو زیادہ تر ممالک پر عائد کیے گئے ہیں، علاوہ ازیں گاڑیوں، اسٹیل اور ایلومینیم پر محصولات زیادہ ہیں۔
بینک آف جاپان نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ محصولات عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہے ہیں۔ اپنی شرح سود کو مستحکم رکھتے ہوئے اپنی ترقی کی پیش گوئیوں کو نظر ثانی کے بعد گِرا دیا تھا۔
تاجر جمعہ کو اپریل کے لیے امریکی ملازمتوں کے اعداد و شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ امریکی مرکزی بینک کے شرح سود رجحان کے بارے میں اشارے مل سکیں۔