امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز ایران میں حکومت کی تبدیلی کو سوال کو اٹھایا، جب کہ ان کی انتظامیہ کے سینئر حکام نے تہران کو کسی بھی قسم کے ردعمل سے باز رہنے کی تنبیہ کی۔
یہ بیان اختتام الہفتہ امریکہ کے ایران کے اہم جوہری مقامات پر حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا، "یہ سیاسی طور پر درست نہیں کہ 'حکومت کی تبدیلی' کی اصطلاح استعمال کی جائے، لیکن اگر موجودہ ایرانی حکومت ایران کو دوبارہ عظیم بنانے میں ناکام ہے، تو حکومت کی تبدیلی کیوں نہ ہو؟ "
ٹرمپ کا یہ بیان امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ، کے اس مؤقف کے بعد آیا کہ وہ ایران کی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کر رہے۔
ہیگسیٹھ نے پینٹاگون میں صحافیوں کو بتایا، "یہ مشن حکومت کی تبدیلی کے بارے میں نہیں تھا۔" انہوں نے اس مشن کو "ایک درست کارروائی" قرار دیا جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانا تھا۔
آپریشن مڈنائٹ ہیمر
وینس نے این بی سی کے پروگرام "میٹ دی پریس ود کرسٹن ویلکر" میں ایک انٹرویو کے دوران کہا، "ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ ہم حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتے۔"
انہوں نے مزید کہا، "ہم اس معاملے کو مزید طول دینا یا بڑھانا نہیں چاہتے۔ ہم ان کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اور پھر ایرانیوں کے ساتھ ایک طویل مدتی معاہدے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔" وینس نے یہ بھی کہا کہ امریکہ " بری فوج بھیجنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔"
‘آپریشن مڈنائٹ ہیمر’ کے بارے میں واشنگٹن اور امریکی فوج کے مشرق وسطیٰ آپریشنز کے ہیڈکوارٹر، ٹامپا، فلوریڈا میں صرف چند افراد کو علم تھا۔
چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل ڈین کین نے صحافیوں کو بتایا کہ سات بی-2 بمبار طیارے امریکہ سے ایران تک 18 گھنٹے کی پرواز کے بعد 14 بنکر بسٹر بم گرانے کے لیے روانہ ہوئے۔
کین نے کہا کہ مجموعی طور پر، امریکہ نے اس کارروائی میں 75 درست نشانے والے ہتھیار، جن میں دو درجن سے زیادہ ٹوماہاک میزائل شامل تھے، اور 125 سے زیادہ فوجی طیارے استعمال کیے۔ یہ کارروائی تین جوہری مقامات کے خلاف کی گئی۔
یہ کارروائی مشرق وسطیٰ کو ایک بڑے نئے تنازعے کے دہانے پر لے آئی ہے، جو پہلے ہی 20 ماہ سے زیادہ عرصے سے غزہ اور لبنان میں جنگوں اور شام میں ایک آمر کی معزولی کے ساتھ کشیدگی کے ماحول سے گزر رہا ہے۔