امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کو ماسکو کو نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ بیان اس رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جو منگل کو "دی فنانشل ٹائمز" نے شائع کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹرمپ نے زیلنسکی کو روس پر حملوں میں اضافہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹرمپ نے مبینہ طور پر زیلنسکی سے پوچھا کہ اگر امریکہ کی طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار فراہم کیے جائیں، تو کیا وہ ماسکو پر حملہ کرے گا؟
پیر کے دن، ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ کیف کو مزید ہتھیار بھیجے جائیں گے اور روس کی یوکرین میں فوجی کارروائیوں کے سبب روس پر زیادہ سخت مؤقف اپنایا جائے گا۔ انہوں نے کریملن کو 50 دن کی مہلت دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر جنگ ختم نہ ہوئی تو روس پر بڑے پیمانے پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
ٹرمپ اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے ایک معاہدے کا اعلان کیا، جس کے تحت یورپی نیٹو ممالک امریکہ سے اربوں ڈالر مالیت کے پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام سمیت دیگر ہتھیار خرید کر یوکرین کو فراہم کریں گے۔
اگرچہ ٹرمپ طویل عرصے سے امریکہ کے یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے کردار پر تنقید کرتے رہے ہیں، نیٹو نے واضح کیا ہے کہ اب زیادہ تر اسلحہ یورپ کی طرف سے بھیجا جا رہا ہے۔
ادھر جرمنی، ڈنمارک، سویڈن اور ہالینڈ جیسے یورپی ممالک نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کے اس نئے منصوبے میں شامل ہوں گے یا شامل ہونے پر غور کریں گے ۔
امریکہ کو یوکرین کو مسلح کرنے میں "بوجھ بانٹنا چاہیے": یورپی یونین کی اعلیٰ نمائندہ
یورپی یونین کی خارجہ امور اور سیکیورٹی پالیسی کی اعلیٰ نمائندہ کایا کالاس نے کہا ہے کہ امریکہ کو یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے میں "بوجھ بانٹنا" چاہیے۔
کالاس نے برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد کہا ہے کہ"ہم صدر ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کو مزید اسلحہ بھیجنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن ہم یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ اس بوجھ کو دوسروں کے ساتھ بانٹے۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"اگر آپ اسلحہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن اس کی قیمت کسی اور سے دلوانا چاہتے ہیں، تو یہ دراصل آپ کی طرف سے دیا گیا نہیں مانا جائے گا۔"
دوسری جانب، کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا ہےکہ امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کی جانب سے یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد، کیف کی جانب سے "جنگ جاری رکھنے کے لیے ایک ترغیب" کے طور پر دیکھی جائے گی۔ ماسکو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیسکوف نے کہا ہے کہ یورپی رہنماؤں کے سیاسی بیانات امن کی تلاش کے بجائے تنازعات کو ہوا دینے کی سمت جا رہے ہیں۔
پیسکوف نے مزید کہا ہےکہ روس اب بھی یوکرین کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے اور وہ تیسرے دور کی بات چیت کے لیے تاریخوں کی تجاویز کا منتظر ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"ہم تیار ہیں، لیکن ہمیں کیف سے کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی۔ واشنگٹن اور یورپ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مکالمہ چاہتے ہیں، لیکن ان کے اقدامات اس کے برعکس ہیں۔"