سنگاپور نے کہا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے اصولی طور پر تیار ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدام سے امن اور دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کو فروغ دینے میں مدد ملنی چاہیے۔
ملکی وزارت خارجہ میں فائز ایشیا بحرالکاہل کے نائب سیکریٹری کیون چیوک نے یہ بیان منگل کے روز نیویارک میں فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
انہوں نے کہا کہ سنگاپور نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کی بنیاد پر فلسطینیوں کے اپنے وطن کے حق کی مسلسل حمایت کی ہے، ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس دیرینہ تنازعے کے جامع، منصفانہ اور پائیدار حل کے حصول کے لیے یہی واحد قابل عمل راستہ ہے اس مقصد کے لیے ہم اصولی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے مستقل جنگ بندی پر اتفاق کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی کوششوں میں تعاون کرنے کے لئے سنگاپور کی آمادگی کا بھی اظہار کیا۔
انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ضروری انسانی امداد کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں فوری طور پر ختم کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم غزہ کے مریضوں کے علاج میں مدد کے لیے خطے میں ایک طبی ٹیم کی تعیناتی پر غور کر رہے ہیں۔ مستقل جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کے بعد ہم طویل مدت میں غزہ کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر بھی زور دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔
یہ بیان فرانس کے ایمانوئل میکرون، برطانیہ کے کیر اسٹارمر اور کینیڈا کے مارک کارنی کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے متعلقہ ممالک ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کر لیں گے۔
گزشتہ ہفتے میکرون نے کہا تھا کہ پیرس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو اس شرط پر تسلیم کرے گا کہ فلسطینی ریاست فوج کشی کو قبول کرے گی اور اسرائیل کو مکمل طور پر تسلیم کرے گی۔
رواں ہفتے اسٹارمر نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں اپنے قتل عام کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہا تو ان کی حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی فلسطین کو تسلیم کرے گی۔
اس سے قبل کارنی نے کہا تھا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی فلسطین کو تسلیم کریں گے۔
اسرائیل نے ان کے تمام منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حماس کے لیے انعام کی نمائندگی کرتے ہیں۔