تل ابیب، گولان پہاڑیوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک اہم اثاثہ سمجھتا ہے کیونکہ یہ علاقہ اسرائیل کو اس کے تین پڑوسی ممالک پر فوجی فائدہ فراہم کرتا ہے۔ کئی عشروں سے قبضہ پالیسی پر عمل پیرا اسرائیل نے گولان پہاڑیوں پر اپنی آباد کاریوں میں اضافے کی منصوبہ بندی کا اعلان کیا ہے۔یہ، 1,800 مربع کلومیٹر پر مشتمل رقبہ شامی علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967 میں غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس علاقے کی حکمت عملی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے چار ممالک شام، اسرائیل، لبنان اور اردن نظر آتے ہیں اور تنازعات میں گھرے اس علاقے میں فوجی فائدہ فراہم کرتا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے ،گولان پہاڑیوں میں "آبادی کے اضافے کی حوصلہ افزائی" کے لیے، 11 ملین ڈالر سے زیادہ کا بجٹ مختص کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو گولان پہاڑیوں میں آبادی کو دوگنا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ "ہم اس علاقے کو اپنے پاس رکھیں گے، اسے ترقی دیں گے اور یہاں آبادکاریاں جاری رہیں گی"۔
تل ابیب گولان ہائٹس کو اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ایک اہم اثاثہ سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹریٹجک اہمیت کی حامل یہ پہاڑیاں اسرائیل کو تین ہمسایہ ممالک پر فوجی فائدہ فراہم کرتی ہیں۔
نیتان یاہو کے دوہرے معیار
اسرائیل اور شام کے درمیان جنگ بندی، 8 دسمبر کو ،نصف صدی پر محیط ایک پُرامن دور کے بعد ختم ہو گئی۔ اسرائیلی ٹینک، اسرائیل اور شام کے درمیانی غیر مسلح علاقے میں 'بفر زون' میں داخل ہو گئے۔یہ علاقہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی قبضے میں ہے۔
اسرائیلی افواج نہ صرف پہاڑ کے شامی حصے تک پہنچ گئیں، بلکہ انہوں نے ایک نیا دفاعی بفر زون بنانے کے لیے وہاں فوج بھی متعین کر دی۔
اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دمشق میں حکومت کی تبدیلی نے جنگ بندی کے انتظامات کو "تباہ کر دیا" ہے اور ہمارا، نئی شامی حکومت کی طرف سے ممکنہ خطرات کو ناکارہ بنانا ضروری ہے۔
گولان پہاڑیوں کے مشرقی حصے کی طرف پیش قدمی کے دوران نیتن یاہو نے اسے صرف "مناسب انتظام ہونے تک عارضی دفاعی پوزیشن" قرار دیا تھا۔
تاہم جریدہ 'دی اکانومسٹ 'نے اشارہ کیا کہ یہ جملہ عبرانی میں جاری کئے گئے بیان میں موجود نہیں تھا، جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نیتن یاہو نے' عارضی پوزیشن' کے الفاظ کا استعمال صرف بین الاقوامی عوامی رائے کو پرسکون کرنے کے لیے اپنے انگریزی بیان میں کیا ہے۔ ایک ہفتے بعد نیتن یاہو نے مقبوضہ گولان پہاڑیوں پر آباد کاری میں توسیع کے منصوبے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسد انتظامیہ کے خاتمے کے بعد شام کی سرحد پر ایک نیا محاذ کھلنے کی وجہ سے یہ اقدام "ضروری" بن گیا ہے۔
دروزی اور چرکس عوام کا مسکن
گولان کی پہاڑیاں، جو 1967 تک شام کے کنٹرول میں تھیں، بنیادی طور پر دروزی اور چرکس آبادی کا گھر تھیں۔ شامی فوجی افواج نے گولان کی پہاڑیوں کے بلند مقام کا استعمال کرتے ہوئے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی آبادیوں پر بمباری کی تھی۔ اس جنگ میں اسرائیل کی فتح ایک اسٹریٹجک اہمیت رکھتی تھی۔ اس فتح سے اسرائیل کو شامی حملوں کے خلاف ایک بفر زون مل گیا اور طبریہ جھیل سمیت پانی کے اہم وسائل پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔
اسرائیل، 2024 میں بھی، یہی منطق استعمال کر کے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے آگے کے اور سابقہ بفر زون تک پھیلے ہوئے علاقے کو حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو "شام سے آنے والے ممکنہ خطرات کو بے اثر کرنے اور دہشت گردوں کو اسرائیلی سرحدوں کے قریب ٹھکانہ بنانے سے روکنے" کی ہدایت دی ہے۔
1967 کی جنگ نے علاقے کی 130,000 نفوس پر مشتمل عرب آبادی کی اکثریت کو بے گھر کر دیا۔ بعد ازاں اسرائیل نے علاقے میں یہودی بستیاں قائم کرنا شروع کیں اور طرزِ عمل کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ گولان کی پہاڑیاں سیکورٹی اور ترقی کے لیے نزاعی اہمیت رکھتی ہیں۔
اس وقت مقبوضہ شامی گولان پہاڑیوں پر تقریباً 50,000 لوگ رہتے ہیں۔ ان میں سے آدھے اسرائیلی آباد کار ہیں اور باقی آدھے دروز ہیں۔دروز، اسرائیلی آبادی کا 1.6 فیصد تشکیل دیتے ہیں ۔ ان کا ایک مختلف عقیدہ ہے جسے شیعہ اسلام کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے ۔
دروز، گولان ریجنل کونسل میں شامل 33 یہودی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ یہ آبادیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی سمجھی جاتی ہیں۔
شام نے، 1973 کی یوم کپور کی جنگ میں گولان پہاڑیوں کو واپس لینے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے بعد، 1974 میں اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں تل ابیب نے شامی سرزمین کے کچھ حصوں سے قبضہ ختم کر دیا لیکن گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ بدستور برقرار رہا۔
اسرائیل نے 1981 میں پہاڑیوں کا یک طرفہ الحاق کر لیا۔یہ اقدام بین الاقوامی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس الحاق کو "باطل اور کالعدم" قرار دیا
مارچ 2019 میں امریکہ کے اس علاقے کو اسرائیل کا حصّہ تسلیم کرنے تک کسی بھی ملک نے گولان پہاڑیوں پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا تھا۔مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی توسیع کی وجہ سے نیتن یاہو کو ملک میں سخت مخالفت کا سامنا ہے ۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ مجھےکوئی ایسی وجہ دِکھائی نہیں دے رہے جو گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی آباد کاری کو ناگزیر بناتی ہو۔ تاہم نیتن یاہو نے کہا کہ ہم شام کے ساتھ تنازع کو بڑھانا نہیں چاہتے اور ہمیں امید ہے کہ ہمیں اس وقت شام پر قابض ان نئے باغیوں سے لڑنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہے تو ہم اس کے بالکل برعکس کیوں کر رہے ہیں؟ ہمارے پاس پہلے ہی نمٹنے کے لئے کافی مسائل ہیں۔