اسرائیل نے ایران اور شام کے بارے میں روس کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیےہیں۔
اسرائیل کے عوامی نشریاتی ادارے کان کی 2 جولائی کی خبر کے مطابق اسرائیل نے ایران اور شام کے موضوع پر اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کئے ہیں۔ مذاکرات، ماسکو کی طرف سے اسرائیل اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش اور 24 جون کی جنگ بندی سے ایک ہفتہ بعد شروع ہوئے تھے ۔
رپورٹ میں ان مذاکرات کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں لیکن اسرائیلی حکام کے، ایران اور شام محیط، ایک جامع سفارتی حل کی تلاش میں ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس دوران، اسرائیل کے، ایران کے موضوع پر، امریکہ کے ساتھ ایک وسیع تر معاہدے کی کوششوں میں ہونے کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اگلے ہفتے واشنگٹن میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران اس مسئلے کو اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل، ایران کے حوالے سے ایک ایسا فریم ورک پیش کرنے کی امید رکھتا ہے جو لبنان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ معاہدے سے مشابہہ ہو۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر فضائی حملے کیے جو 24 جون کو ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد روک دیے گئے تھے۔ اس وقت، روس وزارت خارجہ نے اسرائیلی حملوں کی سخت مذمت کی، انہیں "قطعی طور پرناقابل قبول" قرار دیا اور خبردار کیا تھا کہ "اس اشتعال انگیزی کے تمام نتائج کی ذمہ دار اسرائیلی قیادت ہو گی۔"
تاہم، اسرائیلی اقدامات کی سخت مذمت کے باوجود، ماسکو نے ، تہران کو سیاسی حمایت سے آگے کچھ فراہم کر نے کا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا باوجودیکہ دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کا معاہدہ موجود ہے۔
جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حکام نے "نارملائزیشن معاہدوں"،جنہیں عام طور پر ابراہیم معاہدے کہا جاتا ہے، کی توسیع پر بھی بات چیت کی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق اس وسیع تر علاقائی حکمت عملی کے تحت شام کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات بھی ہو سکتے ہیں۔
روس نے ایک طرف اسرائیل کے ساتھ گرمجوش تعلقات قائم کر کے اور دوسری طرف ایران کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم کر کے،مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے ایک نازک توازن برقرار رکھا ہواہے ۔
ایرانی جوہری اور فوجی مقامات پر حالیہ اسرائیلی حملے کہ جن میں سینئر جرنیل اور سائنسدان ہلاک کر دیئے گئے اور تہران کے جوابی ڈرون اور میزائل حملے، دونوں ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات ہونے کی وجہ سے ماسکو کے لیے ایک پیچیدہ سفارتی امتحان بن گئے ہیں۔
تاہم، یہ صورتحال روس کے لیے ایک موقع بھی پیدا کر سکتی ہے کہ وہ اس تصادم کو ختم کرنے میں ایک طاقتور ثالث کے طور پر ابھرے۔ ماسکو کے کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تصادم پر توجہ مرکوز کرنے سے یوکرین کی جنگ سے عالمی توجہ ہٹ سکتی ہے اور کیف کے لیے مغربی حمایت میں کمزوری سے روس کے مفادات کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔