امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ جو بھی ملک برکس اقتصادی بلاک کی 'امریکہ مخالف پالیسیوں' کے ساتھ اتحاد کرے گا، اسے 10 فیصد اضافی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ٹرمپ نے اتوار کی رات 'ٹروتھ سوشل' پلیٹ فارم سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "اس پالیسی سے کوئی بھی معاف نہیں ہوگا"۔
ایک اورسوشل میڈیا بیان میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ" امریکی ٹیرف خطوط یا معاہدے 7 جولائی بروز سوموار کو گرینچ کے مقامی وقت کے مطابق شام 4 بجے دنیا بھر کے مختلف ممالک کو پہنچا دیئے جائیں گے"۔
جنوری کے آخر میں جاری کردہ بیان میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ "برکس ممالک کے پاس، بین الاقوامی تجارت میں یا کسی بھی اور تجارتی پکلیٹ فورم پر، امریکی ڈالر کی جگہ تبدیل کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے"۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ "ہم ان بظاہر مخالف ممالک سے عہد لیں گے کہ وہ نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی اور ایسی کرنسی کی حمایت کریں گے جو طاقتور امریکی ڈالر کی جگہ لے سکے۔ بصورت دیگر انہیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا"۔
ٹرمپ کے مذکورہ بیانات، بروز اتوارریو ڈی جینرو میں برکس کے 17ویں سالانہ سربراہی اجلاس کے موقع پر جاری کئے گئے ہیں۔
برکس ممالک کی ٹرمپ کے ٹیرف پالیسی پر تنقید
اتوار کومنعقدہ اجلاس میں برکس کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے 'بلا امتیاز' درآمدی محصولات اور حالیہ اسرائیلی۔امریکی حملوں پر تنقید کی تھی۔
واضح رہے کہ برکس ممالک حالیہ برسوں میں ڈالر کی متبادل تجارتی کرنسی پر غور کر رہے ہیں اور خاص طور پر 2022 میں یوکرین میں 'خصوصی فوجی آپریشن' شروع ہونے اور نتیجتاً روس پر امریکی پابندیاں عائد ہونے کے بعد متبادل تجارتی کرنسی کا خیال زیادہ تقویت اختیار کر گیا تھا ۔
برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ سمیت 11 ممالک دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور عالمی اقتصادی پیداوار کے 40 فیصد کے لیے ذمہ دار ہیں۔
یہ بلاک کئی معاملات پرباہمی اختلافات رکھتا ہے لیکن جب بات ہر آن تبدیل ہوتے امریکی صدر اور ان کی محصولاتی جنگ کی ہو تو ،خواہ بلواسطہ ہو یا پھر نام لئے بغیر، سب برکس اراکین میں ہم آہنگی دیکھی جاتی ہے۔
ایک مشترکہ بیان کے مطابق برکس اراکین نے یکطرفہ محصولات میں اضافے پر شدید خدشات کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ یہ محصولات، عالمی معیشت کو ،نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایران پر حملوں کی مذمت
برکس نے اپنے رکن ملک 'ایران' کی علامتی حمایت کی اور ایران کے جوہری اور دیگر اہداف پر اسرائیلی اور امریکی فوجی حملوں کی مذمت کی ہے۔
اپریل میں، ٹرمپ نے اتحادیوں اور حریفوں دونوں کو بھاری تعزیراتی محصولات کی دھمکی دی تھی جسے منڈی کی کساد بازاری کے بعد مہینوں کی مہلت میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے خبردار کیا ہےکہ شراکت داروں کے معاہدے نہ کرنے کی صورت میں ان پر یکطرفہ محصولات عائد کئے جائیں گے ۔ معاہدے کی آخری تاریخ یکم اگست مقرر کی گئی ہے۔
برازیل، بھارت اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادیوں کو بظاہر رعایت دیتے ہوئے برکس اجلاس کے اعلامیے میں کسی بھی مقام پر امریکہ یا اس کے صدر کا نام لے کر تنقید نہیں کی گئی۔
غیر حاضری
'برکس فورم' دو دہائیوں پہلے تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں کے فورم کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا اور اب اس فورم کو امریکی اور مغربی یورپی طاقتوں کے خلاف ایک چینی زیرِقیادت دھڑے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
لیکن اس گروپ میں ایران، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی شمولیت کے بعد فورم ،اسرائیل کی غزہ جنگ سے لے کر امریکی عالمی غلبے کو چیلنج کرنے جیسے مسائل پر، بامعنی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر برکس ممالک نے اجتماعی طور پر اسرائیل۔فلسطین تنازعے کے پرامن دو ریاستی حل کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک ایرانی سفارتی ذریعے نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کے 'تحفظات' برازیلی میزبانوں تک پہنچا دیے گئے ہیں لیکن ایران حکومت نے اس بیان کی مکمل تردید سے گریز کیا ہے۔
برازیل حکومت کے ایک ذریعے کے مطابق شاید سفارتی حساسیت کی وجہ سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اتوار کے مباحثوں میں مکمل شرکت نہیں کی ۔
سعودی عرب دنیا میں امریکی ہائی ٹیک فوجی برآمدات کے سب سے بڑے گاہکوں میں سے ایک ہے اور ایک طویل عرصے سے امریکہ کا شراکت دار ہے۔
اس سال کے اجلاس کی سیاسی اہمیت چین کے شی جن پنگ کی غیر حاضری کی وجہ سے کمزور ہو گئی ہے، جو 12 سالوں میں پہلی بار اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس میں غیر حاضر رہنے والے رہنما صرف چین کے صدر ہی نہیں ہیں بلکہ روس کے صدر ولادی میر پوتن، جن پر یوکرین میں 'جنگی جرائم' کے الزامات ہیں، نے بھی اجلاس میں بنفس نفیس شرکت کی بجائے ویڈیو کانفرنس شرکت کی۔
ولادی میر پوتن نے اپنے ہم منصبوں کو بتایا کہ برکس فورم عالمی حکمرانی میں ایک کلیدی کردار بن چکا ہے۔
اجلاس نے مصنوعی ذہانت کے ضابطہ عمل کا مطالبہ بھی کیا اور کہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی صرف امیر ممالک تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔
باوجودیکہ چین اور دیگر ممالک کی صلاحیت تیزی سے ترقی کر رہی ہے 'تجارتی مصنوعی ذہانت' کا شعبہ اس وقت امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے زیر تسلط ہے ۔