حماس نے غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کی مسلسل بندش کی مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کے خلاف جاری نسل کشی کا تسلسل اور ایک "جنگی جرم" قرار دیا جس کے خلاف بین الاقوامی کاروائی لازمی ہے۔
حماس کے ترجمان عبد اللطیف القنوع نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا: "غزہ کا محاصرہ سخت کرنا، چھ دن تک گزرگاہوں کو بند رکھنا، اور انسانی امداد کی فراہمی کو روکنا درحقیقت ہمارے عوام کی نسل کشی کا ایک ہی حصہ ہے ۔"
انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل کی بھوک پالیسی اور اجتماعی سزا بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ایک جنگی جرم ہے، جسے دنیا کو روکنا چاہیے اور اس کے مرتکب افراد کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔"
قنوع نے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ "قابض اسرائیل کو گزرگاہوں کو کھولنے ، غزہ میں انسانی اور طبی امداد کی اجازت دینے اور غزہ کے فلسطینیوں کی تکالیف کو کو ختم کرنے پر آمادہ کرے۔"
اسرائیل نے اتوار کو غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی روک دی کیونکہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے تل ابیب اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات شروع کرنے سے انکار کر دیا۔
اکتوبر 2023 سے غزہ پر اسرائیلی حملے میں 48,400 سے زائد فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 111,800 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ کو کھنڈر میں بدلنے والے ان حملوں کا ، جنوری 19 کو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت سد باب کیا گیا تھا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نومبر میں نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو غزہ پر اپنی جنگ کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔