امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں کینیڈی قتل کیس کی بعض فائلوں کو خفیہ کی شق سے خارج کر دیا ہے۔ غیر خفیہ کیے گئے ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ آسٹریلیا کے سابق انٹیلی جنس چیف نے 1963 میں صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے وقت امریکی سفارت خانے کینبرا کو موصول ہونے والی گمنام فون کالوں کی تحقیقات کو خفیہ رکھنے کے لیے لابنگ کی تھی۔
آسٹریلیا کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل نےبروز بدھ جاری کردہ خبر میں کہا ہے کہ دستاویزات کے مطابقاس وقت کے آسٹریلین سیکیورٹی انٹیلی جنس آرگنائزیشن کے سربراہ ' چارلس سپرائے' نے اکتوبر 1968 میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز کو خط لکھا، جس میں تحقیقات کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی گئی تھی ۔
ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد، امریکی نیشنل آرکائیوز نے منگل کو 1963 کے قتل سے متعلق 80,000 صفحات پر مشتمل غیر خفیہ ریکارڈ جاری کر دیئے ہیں۔ سی آئی اے نے ان گمنام فون کالوں کی تحقیقات کی تھیں جو کینبرا میں امریکی سفارت خانے کو، دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے اس قتل سے پہلے اور بعد میں، موصول ہوئی تھیں ۔
کینیڈی کے جانشین کے حکم پر قائم کئے گئے 'وارن کمیشن'میں ایک دستاویز شامل تھی جس میں کینبرا کے قتل کی سازش سے متعلق سی آئی اے کی تحقیقات کا ذکر کیا گیا تھا۔
نومبر 1968 میں ہیلمز کو بھیجی گئی ایک یادداشت میں کہا گیا ہے کہ"سر چارلس کا آپ کے لئے خط کینبرا سفارت خانے کو قتل سے پہلے اور بعد میں موصول ہونے والی گمنام فون کالوں سے متعلق ہماری تحقیقات کا حوالہ دیتا ہے سفارش کرتا ہے کہ وارن کمیشن کی دستاویز کو غیر خفیہ کرنے سے پرہیز کیا جائے"۔
چند دن بعد ہیلمز نے سپرائے کو خط لکھا جس میں انہیں یقین دلایا گیا کہ "فی الحال اس دستاویز کو جاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے"۔
آسٹریلین سیکیورٹی انٹیلی جنس آرگنائزیشن سے سی آئی اے نے مہینوں پہلے مشورہ کیا تھا، جیسا کہ ہیلمز نے بیان کیا ہے کہ "وارن کمیشن کے کاغذات جاری کرنے کے لیے مزید دباؤ کی توقع میں"۔
کینیڈی کے قتل کے بارے میں سازشی نظریات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں، حالانکہ سرکاری اداروں، بشمول وارن کمیشن، نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اکیلے بندوق بردار لی ہاروی اوسوالڈ کا کام تھا۔
مرحوم صدر کے بھتیجے اور اس وقت ٹرمپ کے سیکریٹری برائے صحت و انسانی خدمات 'رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر 'نے قتل میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
یہ دستاویزات، جو نیشنل آرکائیوز کے ایک پورٹل پر اپ لوڈ کی گئی ہیں، قتل سے متعلق تمام سرکاری ریکارڈوں کو ظاہر کرنے کی طویل کوشش کا حصہ ہیں۔
ٹرمپ کے 23 جنوری کو دستخط کردہ ایگزیکٹو آرڈر میں اسے عوامی دلچسپی کا معاملہ قرار دیا گیا اور باقی فائلوں کی مکمل ریلیز کی ہدایت دی گئی ہے۔
جے ایف کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کئی تجزیہ کاروں نے امریکی میڈیا کو بتایا ہےکہ نئی دستاویزات سے کوئی انقلابی انکشاف ہونے کا امکان نہیں ہے۔
ایف بی آئی نے حال ہی میں قتل سے متعلق 2,400 پہلے سے غیر ظاہر شدہ ریکارڈز دریافت کیے۔ یہ 14,000 صفحات پر مشتمل دستاویزات میں شامل تھے، جو ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کیے گئے جائزے کے دوران سامنے آئے ہیں۔
یہ ریکارڈ ان تحقیقات کی اہم تفصیلات پر مشتمل ہو سکتے ہیں جو دہائیوں تک خفیہ رکھی گئیں۔