وزیر تجارت عمر بولات کا کہنا ہے کہ ماہ جون میں ترکیہ کی برآمدات گزشتہ 12 ماہ کی مدت میں 267 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئی ہیں۔ جو کہ ملک کی عالمی تجارت میں پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
بدھ کو جاری کردہ وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق، جون کے مہینے میں برآمدات 8 فیصد کے اضافے سے 20.54 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے دوران سب سے زیادہ ماہانہ اضافہ ہے۔
اسی مہینے کے دوران درآمدات 15.3 فیصد بڑھ کر 28.7 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جس سے جون کے لیے غیر ملکی تجارتی خسارہ 8.17 ارب ڈالر رہا اور برآمدات و درآمدات کا تناسب 71.5 فیصد پر رہا۔
سال 2025 کے پہلے چھ ماہ میں ترکیہ کی برآمدات 131.44 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4.1 فیصد زیادہ ہیں۔ دوسری جانب، درآمدات 7.2 فیصد اضافے کے ساتھ 180.87 ارب ڈالر تک رہیں۔
اس چھ ماہ کے عرصے میں ملک نے 49.43 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ریکارڈ کیا، جبکہ برآمدات و درآمدات کا تناسب 72.7 فیصد رہا۔
افریقہ کے ساتھ تجارتی راہداریوں کو مضبوط بنانا
یہ ریکارڈ تجارتی اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے جب ترکی نے افریقی معیشتوں کے ساتھ اپنی روابط کو نئی معاہدوں کے ذریعے مزید تقویت دی ہے۔
اس ہفتے استنبول میں منعقدہ گلوبل ٹرانسپورٹ کنیکٹیویٹی فورم کے دوران، ترکیہ نے سات افریقی ممالک کے ساتھ ترقیاتی راہداری منصوبے اور مڈل راہداری تجارتی راستے سے منسلک کیے جانے سے متعلق مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے— یہ چین سے یورپ تک وسطی ایشیا اور ترکیہ کے ذریعے پھیلنے والا ایک ابھرتا ہوا یوریشیائی تجارتی محور ہے۔
وزیر ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر عبدالقادر اورال اولو نے کہا کہ فورم میں برکینا فاسو، کانگو، جبوتی، ایتھوپیا، گھانا، گنی، مراکش، صومالیہ، موریطانیہ، لائبیریا، نمیبیا، آئیوری کوسٹ اور مصر سے اعلیٰ سطحی نمائندگی شامل تھی۔ ایک مخصوص سیشن میں افریقہ کو عالمی لاجسٹکس اور ٹرانزٹ راہداریوں سے جوڑنے پر توجہ دی گئی۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ "یہ شراکت داری صرف بنیادی ڈھانچے کے بارے میں بلکہ ترکیہ اور افریقی براعظم کے درمیان پائیدار تجارتی اور اسٹریٹجک روابط قائم کرنے کے بارے میں ہیں۔" انہوں نے افریقی معیشتوں کو وسیع تر سپلائی چینز میں ضم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ راستوں اور تجارتی تعلقات کی توسیع ترکی کے طویل مدتی اقتصادی اہداف کے مطابق ہے تاکہ برآمدی منڈیوں کو متنوع بنایا جا سکے اور روایتی تجارتی شراکت داروں پر انحصار کم کیا جا سکے۔