امریکہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی طرف سے، فلسطین حامی مظاہروں میں شرکت کرنے کی وجہ سے حراست میں لئے گئے، کولمبیا یونیورسٹی سے تازہ فارغ التحصیل طالبعلم 'محمود خلیل 'نے امریکی عدالتی نظام کی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
فلسطین حامی ریلیوں میں شرکت کے باعث حراست میں لئے گئے محمود خلیل کے خلاف جاری مقدمے کی گزشتہ ہفتےکی عدالتی سماعت میں جج نے انہیں ملکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ قرار دیا اور امریکہ سے بے دخل کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
اپنی بے دخلی کے عمل کے اگلے مرحلے کے لیے 23 اپریل کی سماعت کے منتظر محمود خلیل نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک خط میں اپنی کہانی بیان کی ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ "جمعہ کے روز، میں ایک عدالت میں بیٹھا تھا جب ایک امیگریشن جج نے فیصلہ سُنایا کہ حکومت مجھے جلا وطن کر سکتی ہے۔ باوجودیکہ میں امریکہ کا قانونی مستقل رہائشی ہوں اور حکومت کی طرف سے مجھ پر لگائے گئے الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔یہ نام نہاد 'ثبوت' زیادہ تر سنسنی خیز اخبارات سے لئے گئے ہیں"۔
اگرچہ یہ فیصلہ ان کی فوری بے دخلی کا سبب نہیں بنے گا، لیکن ان کے کیس کے دیگر مختلف پہلووں کی سماعتیں مختلف عدالتوں میں ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے خلیل کو کئی عدالتوں میں پیشیوں کا سامنا ہے ۔
انہوں نے کہا ہے کہ "میں نے یہ سیکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے جابرانہ ایجنڈے کے نفاذ کے لیے امیگریشن قوانین کا استعمال کر رہی ہے۔جب میں اپنے کیس کے تیز رفتار فیصلے کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ادراک ہوتا ہے کہ اصولی اورقانونی عدالتی عمل کس طرح پاوں تلے روندا گیا ہے۔ دوسری طرف، میں اپنے ساتھی قیدیوں کے بارے میں بھی سوچ رہا ہوں جو کئی مہینوں بلکہ کئی سالوں سے اپنے لئے اصولی قانونی کاروائی کے منتظر بیٹھے ہیں"۔
خلیل نے سوال کیا کہ کولمبیا یونیورسٹی کے مظاہرین، اور امریکہ بھر کی دیگر یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والے ہزاروں طلبہ آخر کیوں آزادی اظہار کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے سزاوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ "اسرائیل کی جانب سے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کے بے دریغ قتل کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے میرے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کیوں ہونی چاہیے؟"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"میں، کولمبیا میں میرے ساتھ احتجاج کرنے والے ہزاروں طالبعلموں جن میں مسلمان، یہودی اور عیسائی سب شامل ہیں کی طرح ، تمام انسانوں کی فطری برابری پر یقین رکھتا ہوں۔ میں انسانی وقار پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اپنے لوگوں کے اس حق پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ نیلے آسمان کو دیکھ سکیں اورانہیں کسی میزائل کے حملے کا خوف نہ ہو۔"
"مفاد پر مبنی جمہوریت، جمہوریت نہیں ہوتی"
خلیل نے کہا ہےکہ "حقوق ان لوگوں کو دیے جاتے ہیں جو اقتدار کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن غریبوں، رنگ و نسل کے لوگوں اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ "فلسطین کے حوالے سے آزادی اظہار کا حق ہمیشہ سے ہی انتہائی کمزور رہا ہے۔ اس کے باوجود، یونیورسٹیوں اور طلبہ پر کریک ڈاؤن ظاہر کرتا ہے کہ وائٹ ہاؤس فلسطین کی آزادی کے خیال کے توجہ حاصل کرنے سےکس قدر خوفزدہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ، صرف اس وجہ سے کہ میں کون ہوں اور کس کے لئے آواز اٹھا رہا ہوں، نہ ٹرمپ کے عہدیدار مجھے بے دخل کرنے کی کوشش کرتے اور نہ ہی عوام کو میرے بارے میں گمراہ کرنے کی"۔ اس وقت کہ جب خلیل عدالت میں اپنے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، تو امکان ہے کہ انہیں شام یا الجزائر کی طرف جلا وطن کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو یہ خط اس امید کے ساتھ لکھا کہ یہ پہلے سے ہی خطرے کے شکار حقوقِ انسانی کے لئے "خطرے کی گھنٹیاں بجائے گا" ۔
انہوں نے کہا ہے"مجھے امید ہے کہ یہ خط ،فلسطین میں قتل عام کے خلاف احتجاج جیسی بنیادی انسانی جبلت کو دبانے والی ، مبہم قوانین اور نسل پرستانہ پروپیگنڈے والی اور سب سے بڑھ کر بیدار عوام سے خوفزدہ ریاست کے خلاف، آپ کے غصّے کو بیدار کرے گا"۔
خط کے آخر میں محمود خلیل نے کہا ہے کہ "مجھے امید ہے کہ یہ تحریر آپ کو یہ سمجھنے پر مجبور کرے گی کہ کچھ افراد کے لیے جمہوریت یا پھر مفاد پر مبنی جمہوریت ہرگز جمہوریت نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ خط آپ کو عمل مجبور کرے گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔"