ایک سینئر امریکی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے اسرائیل کےمنصوبے کو ویٹو کر دیا ہے۔
اتوار کے روز امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "ہمیں معلوم ہوا کہ اسرائیلیوں نے ایران کے سپریم لیڈر کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ صدر ٹرمپ اس کے خلاف تھے اور ہم نے اسرائیلیوں کو ایسا نہ کرنے کا کہا ہے۔"
اس سے قبل، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان رپورٹس کے بارے میں ایک سوال کو ٹال دیا جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ نے ان کے ملک سے خامنہ ای کو قتل نہ کرنے کا کہا ہے۔
انہوں نے فاکس نیوز کو بتایا، "میں اس بارے میں بات نہیں کروں گا۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ... ہم وہ کریں گے جو ہمیں کرنا ہوگا، اور مجھے لگتا ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا بہتر ہے۔"
یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب اتوار کے روز اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے پر میزائل حملے کیے، اور رہائشیوں کو پناہ لینے کی ہدایت دی گئی کیونکہ مشرقی القدس کے اوپر دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں، جبکہ تہران میں فضائی دفاعی نظام کو فعال کیے جانے کی اطلاعات تھیں۔
دہائیوں کی دشمنی اور پراکسی جنگوں کے بعد، یہ پہلا موقع ہے جب دونوں ممالک نے اتنی شدت کے ساتھ ایک دوسرے پر حملے کیے، جس سے پورے مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لینے والے طویل تنازعے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ جنگ جمعہ کے روز شروع ہوئی جب اسرائیل کے حملے میں اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنسدان مارے گئے، اور ملک بھر میں فوجی اڈوں، جوہری مقامات اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تل ابیب کے بلا اشتعال حملے نے جھڑپوں کو جنم دیا، جس کے بعد ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے کیے۔
یہ حملے اور جوابی حملے مسلسل جاری ہیں۔ نیتن یاہو نے فاکس نیوز کو یہ بھی اشارہ دیا کہ اسرائیل نے ایران کے انٹیلیجنس چیف محمد کاظمی کو قتل کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے اصرار کیا کہ واشنگٹن، جو اسرائیل کا مضبوط اتحادی ہے، "اس وقت" اسرائیل کی بمباری مہم میں شامل نہیں ہے۔
انہوں نے اتوار کو اے بی سی نیوز کو بتایا کہ امریکہ "اس وقت" فوجی کارروائی میں شامل نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو اس بحران کے حل کے لیے ثالث کے طور پر قبول کرنے کے لیے "تیار" ہیں۔