اسرائیل کے اپنے دیرینہ دشمن کے خلاف سب سے بڑے فوجی حملے کے بعد ایران نے امریکہ کے ساتھ تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کو "بے معنی" قرار دیا اور واشنگٹن پر اس حملے کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔
نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم نے جمعہ کو وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ " امریکہ نے ایسے انداز میں کام کیا ہے جس سے مذاکرات بے معنی ہو گئے ہیں۔ آپ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی صیہونی حکومت (اسرائیل) کو ایران کے علاقے کو نشانہ بنانے کی اجازت دے کر اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے "سفارتی عمل پر اثر ڈالنے میں کامیابی حاصل کی" اور اسرائیلی حملہ واشنگٹن کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
ایران نے امریکہ پر اسرائیل کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا، لیکن واشنگٹن نے اس الزام کی تردید کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تہران کو بتایا کہ اس کے لیے "عقل مندی" ہوگی کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کے چھٹے دور کا اتوار کو مسقط میں انعقاد ہونا تھا، لیکن اسرائیلی حملوں کے بعد یہ واضح نہیں تھا کہ یہ مذاکرات آگے بڑھیں گے یا نہیں۔
ایران نے اسرائیل کے خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کے دعووں کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا یورینیم افزودگی پروگرام صرف شہری مقاصد کے لیے ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رائٹرز کو بتایا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اسرائیلی حملوں کے بارے میں پہلے سے علم تھا، لیکن وہ اب بھی کسی معاہدے کی گنجائش ہونے کا خیال رکھتے ہیں۔