یوکرین اور روس نے ہفتے کے روز قیدیوں کا ایک اور تبادلہ کیا ہے جو کہ رواں ہفتے کے دوران چوتھا تبادلہ تھا۔
دونوں متحارب فریقوں نے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ یہ تبادلہ رواں مہینے کے آغاز میں استنبول میں طے پانے والے معاہدوں کے تحت کیا گیا ہے۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زلنسکی نے سوشل میڈیا سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "ہم اپنے لوگوں کو روسی قید سے نکالنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قیدیوں کا حالیہ تبادلہ ایک ہفتے کے دوران چوتھا تبادلہ ہے"۔
روس وزارت دفاع نے ٹیلیگرام سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "روس۔یوکرین معاہدوں کی رُو سے روسی فوجیوں کا ایک اور گروپ کیف حکومت کے زیر کنٹرول علاقے سے واپس لایا گیا ہے"۔
جنگی قیدیوں کے تبادلے کے ذمہ دار 'یوکرینی حکام' نے کہا ہے کہ استنبول معاہدے کی رُو سے ہمیں روس کی طرف سے 1,200 نامعلوم افراد کی لاشیں بھی ملی ہیں جن کے بارے میں روس کا دعویٰ ہے کہ وہ "یوکرینی شہریوں اور فوجی اہلکاروں"کی لاشیں ہیں ۔
یوکرین نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس نے روس کو کوئی لاش واپس کی ہے یا نہیں۔
زلنسکی کی جانب سے ٹیلیگرام پر شائع کی گئی تصاویر میں مختلف عمروں کے مرد دکھائے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تَر کے سر مُنڈے ہوئے تھے۔ وہ کیموفلاج لباس میں تھے اور یوکرینی جھنڈوں میں لپٹے ہوئے تھے۔
قیدیوں میں سے کچھ زخمی تھے، کچھ بسوں سے اتر کر استقبال کرنے والوں کو گلے لگا رہے تھے، یا فون پر کسی سے بات کر رہے تھے، کبھی اپنے چہرے ڈھانپ رہے تھے یا مسکرا رہے تھے۔
ماسکو وزارت دفاع کے جاری کردہ ویڈیو مناظر میں یونیفارم میں ملبوس روسی قیدی جھنڈے تھامے ہوئے تھے۔ وہ تالیاں بجا رہے تھے اور روس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔کچھ نے اپنے مکّے ہوا میں بلند کر رکھے تھے۔
یہ تبادلہ ایسے وقت میں ہوا ہےجب روس نے بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کیا اور محاذ پر اپنی جارحیت کو تیز کر دیا ہے۔جارحیت میں تیزی خاص طور پر شمال مشرقی علاقے سومی میں دیکھی گئی ہے جہاں روس اپنے علاقے 'کرسک' کی حفاظت کے لیے ایک "بفر زون" قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
زلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ سومی کی طرف روسی پیش قدمی کو روک دیا گیا ہے اور کیف کی افواج نے ایک گاؤں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زلنسکی کے مطابق روس، سومی آپریشن میں 53,000 افراد کا استعمال کر رہا ہے۔