بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی یونان کے زیر انتظام قبرص کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ دورے کا مقصد جزیرے کے اس ممکنہ کردار پر بات کرنا ہے جو بھارت کو بذریعہ تجارتی راہداری یورپ سے منسلک کر سکتا ہو۔ یہ دورہ ترکیہ کے اس موقف کو واضح کرنے کے باوجود کیا جا رہا ہےکہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہماری شمولیت کے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں واضح کرنے کے باوجود کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق مودی اور یونانی قبرصی رہنما نکوس کرسٹوڈولائیڈس ، کینیڈا میں جی 7 ممالک کے اجلاس میں شرکت کرنے اور اتوار کو کاروباری رہنماؤں سے خطاب کرنے کے بعد پیر کو باضابطہ مذاکرات کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔
مودی کا حالیہ 'دورہ جنوبی قبرص' 23 سال بعد بھارت سے صدارتی سطح پر جزیرے کا پہلا دورہ ہے اور ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے پر میزائل اور جنگی طیاروں کے ذریعے حملے کیے ہیں۔ یہ حملے گذشتہ کئی دہائیوں کی شدید ترین کشیدگی قرار دیئے جا رہے ہیں۔
اس تنازعے کے دوران، پاکستان نے کئی بھارتی طیارے مار گرائے، جن میں رافیل بھی شامل تھے، جو مودی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ ترکیہ وہ پہلا ملک تھا جس نے اسلام آباد سے رابطہ کیا اور درجنوں شہریوں کی ہلاکت کا اور خطّے میں عدم استحکام کا سبب بننے والے، بھارتی فضائی حملوں کی مذمت کی تھی۔
خطے میں جنگ بندی اور دیرپا امن کے لیے ترکیہ کے موقف اور تنازعے کے دوران پاکستان کی حمایت نے مودی کے حامی دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں میں ترکیہ کے خلاف شدید جذبات کو جنم دیا ہے۔
"ترکیہ کے بغیر کوئی راہداری ممکن نہیں"
بھارت طویل عرصے سے ایک وسیع خطّے کے ساتھ سمندری اور ریلوے تجارتی رابطے کے لئے "بھارت۔مشرق وسطی۔یورپ راہداری" (IMEC) کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں ہے۔
"بھارت۔مشرق وسطی۔یورپ راہداری" منصوبہ عالمی انفراسٹرکچر منصوبوں کی مالی معاونت کے لیے مغربی قیادت میں شروع کیے گئے "پارٹنرشپ فار گلوبل انفراسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ منصوبے" (PGII) کا حصہ ہے۔
اس سے قبل، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوعان نے اعلان کیا تھا کہ یہ منصوبہ ترکیہ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ موزوں ترین راستہ مشرق سے مغرب کی طرف جاتا ہے اور ترکیہ سے گزرتا ہے۔
انہوں نے ترکیہ کے ایک اہم پیداواری و تجارتی بیس ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہے کہ "ہم کہتے ہیں کہ ترکیہ کے بغیر کوئی راہداری ممکن نہیں ہے"۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی زیرِ قیادت جاری متعدد سفارتی کوششوں کے باوجود جزیرہ قبرص، قبرصی ترکوں اور قبرصی یونانیوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے جاری، تنازعے میں پھنسا ہوا ہے۔
انقرہ مسلسل، قبرصی ترکوں اور اس مسئلے کے دو ریاستی حل کی، مضبوط حمایت کا اظہار کرتا چلا آ رہا ہے۔
اردوعان نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ مستقبل میں متوقع کسی بھی مذاکرات کو پہلے دو خودمختار ریاستوں کے وجود کو مساوی حیثیت کے ساتھ تسلیم کرنا ہوگا۔