بنگلہ دیش نے اقوام متحدہ کی درخواست پر میانمار کی ریاست اراکان کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک انسانی راہداری قائم کرنے پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا ۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خارجہ امور کے مشیر محمد توحید حسین نے کہا، "اقوام متحدہ بنگلہ دیش کے ذریعے ایک انسانی راہداری قائم کرنا چاہتاہے تاکہ میانمار کی ریاست اراکان میں انسانی امداد بھیجی جا سکے۔ عبوری حکومت نے کچھ شرائط کے ساتھ اصولی طور پر اس پر اتفاق کیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "یہ ایک انسانی راہداری ہوگی، لیکن ہماری کچھ شرائط ہیں۔ میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ اگر شرائط پوری ہوئیں تو ہم مدد کریں گے۔"
حسین نے کہا کہ میانمار میں جاری تنازعہ بنگلہ دیش کے مفادات سے جڑا ہوا ہے "کیونکہ میانمار کی ایک بڑی آبادی نے ہمارے ملک میں پناہ لی ہوئی ہے، اور ہم انہیں واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہمیں جو بھی کرنا پڑے، ہم کریں گے تاکہ انہیں واپس بھیجا جا سکے۔"
بنگلہ دیش پہلے ہی کوکس بازار میں میانمار سے آنے والے 13 لاکھ سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، جو اگست 2017 میں فوجی کریک ڈاؤن کے بعد وہاں پہنچے تھے۔
انسانی بحران
میانمار کی فوجی حکومت نے اراکان ریاست میں ارکان آرمی باغی گروپ کو گھیرنے کے لیے تمام تر سیلات کو روک دیا ہے، جس سے انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کو اراکان میں قحط کا خدشہ ہے اور اس نے بنگلہ دیش سے انسانی امداد پہنچانے کے لیے راہداری فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
اگرچہ انسانی راہداری عام شہریوں کی مدد کے لیے فراہم کی جاتی ہے، لیکن جب ایسی راہداری کھولی جاتی ہے تو خطے میں موجود مجرم، بشمول باغی یا دہشت گرد گروپ، اسے محفوظ راستے کے طور پر استعمال کرنے کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ خطہ مختلف سرحد پار جرائم، بشمول منشیات اور غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ کے راستوں میں سے ایک کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
اس تشویش کے جواب میں حسین نے کہا، "یہ راہداری سامان کے لیے ہے؛ اسلحہ کی ترسیل کے لیے نہیں۔"
میانمار کی سرحد کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "یہاں پوری سرحد ایک غیر ریاستی عنصر کے کنٹرول میں ہے۔
میانمار کی مرکزی حکومت (فوجی حکومت) کا وہاں کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ لہٰذا اپنے مفاد کے لیے، ہم کسی بھی قسم کے رابطے، یعنی غیر رسمی رابطے، غیر ریاستی عناصر کے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن ہم چاہیں بھی تو (ارکان آرمی) سے مکمل طور پر الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔"
انہوں نے مزید کہا، "لہٰذا ہم جتنا ضروری ہو، اتنا رابطہ رکھیں گے۔"