معروف پاکستانی معیشت دان، فلسفی، سیاستدان اور اسلامی اسکالر پروفیسر خورشید احمد طویل علالت کے بعد اتوار کے روز برطانیہ کے شہر' لیسٹر' میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کے خاندان اور سیاسی جماعت نے ان کی وفات کی تصدیق کر دی ہے۔
93 سالہ پروفیسر خورشید احمد 23 مارچ 1932 کو دہلی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے شاندار کیریئر کے دوران کئی اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دیں، جن میں پاکستان کی ایوانِ بالا، سینیٹ کے تین مرتبہ رکن منتخب ہونا، ملک کے منصوبہ بندی کمیشن کے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دینا، اسلامی ادب، معیشت اور سماجی مسائل پر کئی کتابیں تحریر کرنا شامل ہیں۔
1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہو گیا اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔
انہوں نے 1949 میں گورنمنٹ کالج، جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، میں کاروبار اور معیشت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔
پروفیسر خورشید احمد نے 1962 میں کراچی یونیورسٹی سے معیشت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے برطانیہ کا سفر کیا، جہاں انہوں نے 1968 میں لیسٹر یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
1970 میں لیسٹر یونیورسٹی نے انہیں تعلیم میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا اور اسی سال انہوں نے وہاں کے فلسفے کے شعبے میں معاصر فلسفے کی تدریس شروع کی۔
اسلامی معیشت
پروفیسر خورشید احمد نے 1950 کی دہائی میں دو مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ، جو ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے، کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ تقریباً دو دہائیوں تک 2015 تک جماعتِ اسلامی، جو ملک کی مرکزی مذہبی و سیاسی جماعت ہے، کے نائب امیر بھی رہے۔
انہوں نے ایک اور معروف مذہبی اسکالر کے ساتھ مل کر برطانیہ اسلامی مشن کی بنیاد رکھی، جو بعد میں برطانیہ کی سب سے بڑی مسلم تنظیموں میں سے ایک بن گئی۔
پروفیسر خورشید احمد، اسلام آباد میں عوامی پالیسی پر تحقیق کرنے والے تھنک ٹینک 'انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز' کے بانی اراکین میں سے بھی تھے۔
اسلامی معیشت کے میدان میں ان کے کام نے اسلامی اقتصادی فقہ کی ترقی میں مدد فراہم کی۔
انہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک معروف اسلامی رسالہ ترجمان القرآن کی ادارت بھی کی۔
1990 میں انہیں 'شاہ فیصل بین الاقوامی انعام' اور 2011 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہری اعزاز 'نشانِ امتیاز' سے نوازا گیا۔