امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نے شامی وزیر خارجہ اسعد حسن الشیبانی کے ساتھ ایک ٹیلیفونک گفتگو میں کہا ہے کہ ہم شام سے متعلق دہشت گردی کے حوالے سے عائد پابندیوں کے جائزے پر غور کریں گے
روبیو نے اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کی فہرستوں کے ممکنہ جائزے پر بات کی اور شام پر پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے ماضی کے امریکی اقدامات کا حوالہ دیا۔ تاہم، انہوں نے اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ واشنگٹن ان افراد اور گروہوں پر پابندیاں برقرار رکھے گا جنہیں وہ "بد نیت عناصر" قرار دیتا ہے، جن میں بشار الاسد اور ان کے ساتھی شامل ہیں۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس کے مطابق، روبیو نے اس بات پر زور دیا کہ ہم شام اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ تشکیل دینے والے بشار الاسد، ان کے ساتھیوں اور دیگر افراد پر پابندیاں برقرار رکھنے کے ارادے پر اٹل ہیں۔
وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ یہ اقدامات امریکہ اور شام کے تعلقات میں ایک نیا باب کھولنے اور شامی عوام کے حالات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ دونوں حکام نے انسداد دہشت گردی کے تعاون، ایران، اسرائیل-شام تعلقات، اور شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے باقی ماندہ عناصر کو ختم کرنے کی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
یہ گفتگو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کے بعد ہوئی جس میں انہوں نے شام سے متعلق امریکی پابندیوں کے پروگرام اور قومی ہنگامی حالت کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے یہ اعلان 13 مئی کو سعودی عرب میں ایک سرمایہ کاری فورم کے دوران کیا، جہاں انہوں نے ان پابندیوں کو "سخت اور تباہ کن" قرار دیا۔
ایک دن بعد، انہوں نے ریاض میں شامی صدر احمد الشراع کے ساتھ ایک تاریخی ملاقات کی، جو کہ 25 سالوں میں امریکی اور شامی رہنماؤں کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔
امریکہ کی طرف سے شام کے لیے نرمی کے اشارے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے شام پر عائد پابندیاں ہٹائی ہیں تاکہ اسے "ایک موقع دیا جا سکے،" جبکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ واشنگٹن ایک مستحکم اور متحد شام کی حمایت کے لیے مزید اقدامات کر رہا ہے۔
روبیو نے کہا کہ یہ اقدام ٹرمپ کے پابندیاں ختم کرنے کے فیصلے کے بعد کیا گیا ہے، اور مزید کہا کہ امریکی اقدامات شام کے مستقبل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے 2011 میں شامی حکومت کی مخالف مظاہروں پر پرتشدد کریک ڈاؤن کے جواب میں شام پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان اقدامات میں اثاثے منجمد کرنا، مالیاتی منتقلی اور ٹیکنالوجی تک رسائی پر پابندیاں، اور حکومت کے ساتھ لین دین پر پابندیاں شامل تھیں۔