صدر ٹرمپ کی طرف سے الیکٹرانک مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی کی معافی کےاعلان کے بعد تجارتی جنگ کے خدشات میں کمی کے نتیجے میں ایشیاء اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن اس خدشے نے کہ ریلیف زیادہ دیرپا نہیں ہو گا ڈالر کی قدر گرا دی اور سونے کی قیمت ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔
گزشتہ ہفتے کے دوران مارکیٹ میں شدید اتار چڑھاؤ کے بعد، پیر کے روز مارکیٹ نے نسبتاً مستحکم آغاز کیا۔ جمعہ کو یہ خبر آئی کہ وائٹ ہاؤس اسمارٹ فون، سیمی کنڈکٹر، کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنالوجی آلات کو 'جوابی' ٹیرف سے مستثنیٰ رکھے گا۔
یہ اعلان ، ٹیرف کے موضوع پر صدر ٹرمپ کے بدلتے فیصلوں اور چین کی جوابی کارروائیوں کے باعث پریشان سرمایہ کاروں کے لیے ایک امید بن گیا۔
وال اسٹریٹ کے تینوں اہم انڈیکس مضبوطی کے ساتھ بلند ہوئے اور اس بلندی میں ایک اعلیٰ فیڈرل ریزرو عہدیدار کے اس بیان نے، کہ بینک مالیاتی منڈیوں کی حمایت کے لیے تیار ہے، اہم کردار ادا کیا۔
ایشیائی مارکیٹ نے بھی اس رجحان کی پیروی کی اور ٹیکنالوجی کمپنیوں نے ہانگ کانگ کو دو فیصد سے زیادہ اوپر لے جانے میں مدد دی، جبکہ ٹوکیو، شنگھائی، سڈنی، سیول، سنگاپور، ویلنگٹن، تائی پے اور منیلا میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پیپر اسٹون سے 'کرس ویسٹن' نے کہا ہے کہ "ایک مدت کے افراتفری کے بعد، رِسک اور تحلیل کی ریٹنگ کرنے والی کمپنیوں کی رہبری سےاس صورتحال کی لیکیڈٹی شرائط میں بہتری لائی جا سکتی اور منڈیوں میں واضح سکون کے ماحول کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
نیا سیمی کنڈکٹر ٹیرف
تاہم، ٹرمپ نے اتوار کوجاری کردہ بیانات میں کہا ہے کہ محصولات میں چھوٹ کا غلط ادراک کیا گیا ہے۔ ٹرُتھ سوشل میڈیا سے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ خاص طور پر ہماری ساتھ بد ترین سلوک کرنے والا ملک چین بالکل بھی نہیں۔
انہوں نے کہا ہےکہ وہ 'اگلے ہفتے' ایک نیا سیمی کنڈکٹر ٹیرف کا اعلان کریں گے۔
ان کے کامرس سیکریٹری، ہاورڈ لٹ نک، نے پہلے کہا تھا کہ چپ پر ٹیرف 'ایک یا دو ماہ میں' نافذ ہو سکتے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے پیر کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ تحفظ پسندی 'کہیں نہیں لے جاتی' اور تجارتی جنگ کا 'کوئی فاتح' نہیں ہوگا۔ یہ بیان بیجنگ کے امریکی اشیاء پر 125 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے سے چند دن بعد جاری کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں شی جن پنگ اشارہ دیا ہے کہ مستقبل میں مزید جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
واشنگٹن نے چینی مال پر ٹیرف کو 145 فیصد تک بڑھا دیا ہے اور اسے بدھ کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے اعلان کردہ 90 روزہ مہلت سے چین کو خارج رکھا ہے۔
ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال نے نہ صرف اسٹاک مارکیٹ میں خوف پیدا کیا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے مستقبل کے بارے میں خدشات کے باعث ڈالر کو بھی متاثر کیا ہے۔
ڈالر ،پیر کے روز اپنے اہم حریفوں کے مقابلے میں گِر گیا، یورو تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور سوئس فرانک 10 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
سونے کی قیمت میں اضافہ
ٹریژریز بھی دباؤ میں ہیں کیونکہ خدشہ ہے کہ چین اور دیگر ممالک اپنے بڑے اثاثوں کو فروخت کر سکتے ہیں، جس سے امریکہ کی محفوظ سرمایہ کاری کی حیثیت سوالیہ نشان بن سکتی ہے۔
اور سونا، جو بحران کے وقت محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر جانا جاتا ہے، پیر کو 3,245.75 ڈالر کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس بڑھوتی میں ڈالر کی کمزورحیثیت نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔
ان اقدامات کے اثرات کے بارے میں خدشات کے پیش نظر، بوسٹن فیڈ کی سربراہ سوسن کولنز نے فنانشل ٹائمز کو بتایا ہے کہ حکام، مالیاتی منڈیوں کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے مختلف آلات استعمال کرنے کے لئے 'بالکل تیار' ہوں گے ۔
یاہو فنانس کے ساتھ ایک علیحدہ انٹرویو میں، انہوں نے کہا ہے کہ'جتنے زیادہ ٹیرف ہوں گے، اتنی ہی زیادہ ممکنہ سست روی اور افراط زر میں اضافہ ہوگا "۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں توقع ہے کہ افراط زر اس سال 'تین فیصد سے کافی زیادہ' ہو جائے گا لیکن انہوں نے کسی 'اہم' معاشی گراوٹ کی توقع ظاہر نہیں کی۔