امریکہ کی ریاست لاس اینجلس کی میئر 'کیرن باس' نے شہر کے ڈاؤن ٹاؤن علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ، امریکہ کے ادارہ برائے مہاجرت و کسٹم 'آئی سی ای' کے چھاپوں کے خلاف کئی دنوں سے جاری شدید مظاہروں کے بعد کیا گیا ہے ۔ ان مظاہروں کے دوران، خاص طور پر رات گئے اور صبح کے ابتدائی اوقات میں ،مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، وسیع پیمانے پر توڑ پھوڑ ہوئی، اور کچھ لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
کرفیو منگل کی رات 8 بجے سے شروع ہوا اور بدھ کی صبح 6 بجے تک نافذ رہا ہے۔ یہ کرفیو ڈاؤن ٹاؤن کے ایک مربع میل علاقے پر لاگو ہوگا۔
میئر کیرن باس نے کہا ہے کہ جمعہ کی رات سے منگل تک، دن اور شام کے اوقات میں لاس اینجلس کے ڈاؤن ٹاؤن کے مختلف حصوں میں مظاہرے جاری رہے۔ درجنوں مظاہرین نے یو ایس 101 موٹروے کو عبور کرنے کی کوشش کی، اور دیواروں پر اشتہار بازی کر کے اور شیشے توڑ کر ڈاؤن ٹاؤن کی عمارتوں کو 'سنجیدہ سطح پر نقصان' پہنچایا ہے۔
کیلیفورنیا کے سیاسی رہنماؤں نے ٹرمپ انتظامیہ سے، ان مظاہروں کا سبب بننے والے، امیگریشن چھاپوں کو روکنے کی اپیل کی ہے ۔ کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب صدر ٹرمپ نے ریاست کے گورنر گیون نیوسم کی مخالفت کے باوجود نیشنل گارڈ اور میرین یونٹ کو کیلیفورنیا بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
میئر باس نے کہا ہے کہ 'میں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ جو کچھ اس ایک مربع میل علاقے میں ہو رہا ہے، وہ پورے شہر کو متاثر نہیں کر رہا اور اس سے میرا مقصد یہاں ہونے والی توڑ پھوڑ اور تشدد کو معمولی ثابت کرنا نہیں ہے۔مظاہروں اور تشدد کی تصاویر سے ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک شہر بھر کا بحران ہے، لیکن ایسا نہیں ہے"۔
واضح رہے کہ لاس اینجلس نے اس سے پہلے 2020 میں ، جب جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہوئے تھے، رات کا کرفیو نافذ کیا تھا۔ اس وقت بھی پُرامن مظاہرین نے کرفیو کی خلاف ورزی کی اور مارچ جاری رکھا تھا۔