امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست کے جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات سے قبل کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
ٹرمپ نے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں چاہتا ہوں کہ ایران ایک شاندار، عظیم اور خوشحال ملک بنے، لیکن وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔" یہ بیان اس وقت دیا گیا جب ان کے نمائندے اسٹیو وٹکوف عمان میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کرنے والے تھے۔
وٹیکوف نے جمعہ کو کہا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا وائٹ ہاؤس کی "سرخ لکیر" ہے۔
انہوں نے دی وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا، "میرا خیال ہے کہ ہمارا مؤقف آپ کے پروگرام کو ختم کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ اسوقت ہماری پالیسی یہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان سمجھوتے کے دیگر طریقے تلاش نہیں کریں گے۔"
یہ بیان اس وقت آیا جب وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ٹرمپ کا "حتمی مقصد" یہ یقینی بنانا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار کا مالک نہ بن سکے۔
وٹیکوف نے کہا، "جہاں ہماری سرخ لکیر ہوگی، وہاں آپ کی جوہری صلاحیت کو ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"
رپورٹ کے مطابق، نمائندے نے کہا کہ اگر تہران اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ اس مسئلے کو ٹرمپ کے پاس لے جائیں گے تاکہ اگلے اقدامات کا فیصلہ کیا جا سکے۔
ایران حقیقی اور منصفانہ معاہدے کا خواہاں
ایران نے جمعہ کو کہا ہے کہ وہ ایک "حقیقی اور منصفانہ" معاہدہ چاہتا ہے۔
دیرینہ حریف چند ہفتوں بعد ملاقات کرنے والے ہیں، صدر ٹرمپ نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیج کر سفارت کاری کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن خبردار کیا تھا کہ اگر ایران انکار کرتا ہے تو ممکنہ فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے ایکس پراپنی پوسٹ لکھا تھا کہ"کیمرے کے سامنے صرف بات کرنے کے بجائے، تہران ایک حقیقی اور منصفانہ معاہدہ چاہتا ہے، اہم اور قابل عمل تجاویز تیار ہیں۔"
انہوں نے تصدیق کی کہ وزیر خارجہ عراقچی "امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے مکمل اختیار کے ساتھ عمان جا رہے ہیں" اور مزید کہا کہ اگر واشنگٹن نیک نیتی دکھائے تو آگے کا راستہ "ہموار" ہوگا۔
ایران اور عالمی طاقتوں نے 2015 میں ایک جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت تہران کی جوہری سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں اور اس کے بدلے میں پابندیوں میں نرمی کی گئی۔
تاہم، ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب، ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف شہری توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔