سی این این نے متعدد عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکہ کو تازہ انٹیلی جنس معلومات ملی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر فوجی حملے کی تیاری کر رہا ہے جبکہ واشنگٹن اور تہران ایران کے جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی قیادت کی جانب سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن مسلسل مواصلات اور فوجیوں کی نقل و حرکت کا مشاہدہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ممکنہ آپریشن کی تیاریاں اچھی طرح سے جاری ہیں۔
ایک ذرائع نے سی این این کو بتایا کہ حالیہ مہینوں میں ایرانی جوہری تنصیب پر اسرائیلی حملے کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی ثالثی میں ایران کے ساتھ معاہدے کا امکان جس میں یورینیم کے تمام ذخائر کو ختم نہیں کیا جائے گا، اسرائیلی فوجی کارروائی کے امکانات میں اضافہ کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے اسرائیل کی مخصوص فوجی سرگرمیوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے جن میں فضائی گولہ بارود کی نقل و حرکت اور بڑے پیمانے پر فضائی مشقوں کا اختتام بھی شامل ہے۔
تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اس وقت تک اس طرح کے حملے کی حمایت سے گریز کرے گا جب تک کہ ایران دشمنی کا آغاز نہیں کرتا۔
سی این این کے مطابق اس ماہ کے اوائل میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ایک سینئر مغربی سفارت کار نے کہا تھا کہ ٹرمپ کے مطابق امریکہ فوجی حملوں سے قبل ان مذاکرات کو کامیاب ہونے کے لیے صرف چند ہفتوں کا وقت دے گا لیکن فی الحال وائٹ ہاؤس کا موقف سفارت کاری کی پالیسی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس سے قبل ایران کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ امریکی تجاویز کا فوری جواب دینے میں ناکام رہا تو اسے فوری کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا حالانکہ ایرانی حکام نے کسی بھی باضابطہ پیشکش کی تردید کی ہے۔