غزہ جنگ کے نتیجے میں بجٹ خساروں کے باعث اسرائیل وزارت دفاع کے وزارت خزانہ کے ساتھ شدید تنازعات پیدا ہو گئے ہیں۔
اسرائیل کی خبر رساں ایجنسی KAN کے مطابق بروز اتوار سکیورٹی کابینہ کے بند کمرہ اجلاس میں وزارت دفاع نے حکومت کو بتایا ہے کہ زیرِ محاصرہ غزّہ میں پُرتشدد واقعات کو وسعت دینے کے باعث، موجودہ سال کے دفاعی اخراجات 4.17 ارب ڈالر زیادہ ہو چکے ہیں ۔
کان خبر ایجنسی نے کہا ہے کہ اسرائیل وزارت خزانہ کے اندازوں کے مطابق اگر یہ نسل کشی جاری رہی تو سال کے آخر تک بجٹ کا خسارہ 7 ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے ۔
اطلاع کے مطابق وزیر خزانہ بزالل سموٹریچ اور وزارت دفاع کے ڈائریکٹر جنرل، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، کے درمیان ایک اجلاس کے دوران کشیدہ بحث ہوئی ہے۔ بحث میں فریقین نے مالیاتی انتظام کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے ہیں۔
سموٹریچ نے دفاعی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور پہلے سے مختص شدہ فنڈبغیر کسی نگرانی کےخرچ کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے ۔
جواباً وزارت دفاع کے عہدیدار نے کہا ہے کہ "آپ کے کابینہ میں اور جنگی فیصلوں میں شامل ہونے کی وجہ سے میں آپ سے حمایت کی توقع رکھتا ہوں "۔
اسرائیلی کاروباری ادارے "دی مارکر" کے مطابق، 2025 کےبجٹ میں 37.8 ارب ڈالر حصّے کے ساتھ 'وزارت دفاع 'اسرائیلی حکومت کی سب سے زیادہ مالی امداد حاصل کرنے والی وزارت ہے۔
اسرائیلی قتل و غارت
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی جنگ بندی اپیلوں کو مسترد کر کے اکتوبر 2023 سے غزہ کے خلاف شدید قتل و غارت شروع کر رکھی ہے۔ اس نسل کُشی جنگ میں،زیادہ تر عورتوں اور بچوں پر مشتمل، 53 ہزار 900 سے زائد فلسطینی قتل کئے جا چکے ہیں۔
اس نسل کُشی جنگ میں اسرائیل نے عملی طور پر غزّہ کی پوری آبادی کو بے گھر کر دیا اور علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں اسرائیل نے خوراک، پانی، بجلی، ادویات اور دیگر انتہائی ضروری انسانی امداد کی بھی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
گذشتہ نومبر میں، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے، غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم کے الزامات کے ساتھ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کےوارنٹ گرفتاری جاری کیےتھے۔
اسرائیل کو زیرِ محاصرہ شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزام کے ساتھ بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔