امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے تنازع میں زیادہ سے زیادہ ملوث ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے جی سیون سربراہی اجلاس سے جلد ہی دستبرداری اختیار کرلی اور تہران کےباسیوں کو نقل مکانی کرنے کی تنبیہ کی ہے۔
پیر کی رات جی 7 اجلاس کے درمیان کینیڈا سے روانہ ہونے سے قبل ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت کی اور ایرانی دارالحکومت کے تقریبا ایک کروڑ عوام کو دھمکی دی۔
انھوں نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا کہ 'ہر کسی کو فوری طور پر تہران کو خالی کر دینا چاہیے۔'
کنانسکیس کے خوبصورت پہاڑی ریزورٹ میں اپنے ساتھی جی 7 رہنماؤں کے ساتھ ایک گروپ فوٹو میں انہوں نے کہا کہ مجھے جتنی جلدی ہو سکے واپس آنا ہوگا، کاش میں کل تک رہ سکتا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کارولن لیویٹ نے کہا کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس واپس جانے سے قبل رہنماؤں کے عشائیہ میں شرکت کریں گے۔
امریکی صدر ایک دن کی ملاقاتوں میں شرکت نہیں کریں گے جس میں یوکرین اور میکسیکو کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت شامل ہونے کی توقع تھی۔
انہوں نے بارہا یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ آیا امریکہ اسرائیلی فوجی کارروائی میں حصہ لے گا، حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ حملوں میں ملوث نہیں تھا۔
ٹرمپ نے قبل از وقت ملک چھوڑنے کے اعلان سے قبل نامہ نگاروں کو بتایا کہ 'جیسے ہی میں یہاں سے روانہ ہوں گا، ہم کچھ کریں گے۔'
سفارت کاری کو ترجیح دینے کے باوجود اسرائیل کے حملوں کی تعریف کرنے والے صدر نے کہا کہ ایران مذاکرات کے ذریعے تصفیے پر رضامند نہ ہونا 'احمقانہ' ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ دونوں فریقوں کے لیے تکلیف دہ ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ ایران یہ جنگ نہیں جیت رہا اور انہیں بات چیت کرنی چاہیے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان نے زور دے کر کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج بدستور دفاعی پوزیشن میں ہیں۔
اسرائیل نے بڑے فوجی اور سویلین مقامات کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں تقریبا 225 ایرانی ہلاک ہوئے ہیں۔
ان میں کئی سرکردہ کمانڈر اور جوہری تنصیبات سے وابستہ تقریبا 10 سائنسدان شامل ہیں۔
اس کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر ڈرون ز اور میزائلوں سے حملہ کیا ہے جہاں حکام نے 24 ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔
کینیڈا اور یورپی رہنماؤں کو امید تھی کہ وہ اس بحران پر جی سیون کے بیان کا مسودہ تیار کریں گے لیکن سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے امریکہ کو اس میں شامل ہونے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔
صنعتی ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ نے زیادہ تر اسرائیل کی حمایت کی ہے، لیکن تشدد میں شدت کے ساتھ تشویش میں اضافہ ہوا ہے.
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پیر کے روز سربراہی اجلاس کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ایران میں شہریوں کو نشانہ نہ بنائے۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ جی سیون رہنما ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں کشیدگی میں کمی کے لیے اتفاق رائے موجود ہے۔