امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی نے کہا ہے کہ روسی رہنما ولادیمیر پوتن یوکرین کے ساتھ "مستقل امن" معاہدے کے لیے تیار ہیں،یہ بیان تین سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے۔
ٹرمپ ماسکو اور کیف پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن روسی حکام کے ساتھ بار بار مذاکرات کے باوجود کریملن سے کوئی بڑی رعایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
جمعہ کے روز، ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے سینٹ پیٹرزبرگ میں پوتن سے ملاقات کی، جو کہ جنوری میں ریپبلکن رہنما کے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد ان کی تیسری ملاقات تھی۔
وِٹکوف نے پیر کو فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ کسی امن معاہدے کو " سامنےآتے ہوئے" دیکھ رہے ہیں اور پوتن کے دو اہم مشیر - یوری اوشاکوف اور کریل دمتریوف اس "اہم میٹنگ" میں شامل تھے۔
وِٹکوف نے کہا، "پوتن کی درخواست یہ ہے کہ یہاں ایک مستقل امن قائم ہو۔ یعنی جنگ بندی کے علاوہ اس معاملے پر بھی بات چیت کی ہے،" انہوں نے تسلیم کیا کہ "ہمیں اس مقام تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔"
انہوں نے مزید کہا، "مجھے لگتا ہے کہ ہم کسی ایسی چیز کے قریب ہو سکتے ہیں جو دنیا کے لیے انتہائی اہم ہے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس اور امریکہ کے درمیان کاروباری معاہدے بھی مذاکرات کا حصہ تھے۔
انہوں نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ کچھ بہت اہم تجارتی مواقع کے ذریعے روس-امریکہ تعلقات کو از سر نو تشکیل دینے کا امکان ہے، جو خطے میں حقیقی استحکام بھی فراہم کرتے ہیں۔"
خیال رہے کہ سفارتی سرگرمیوں کے باوجود، ٹرمپ کے یوکرین میں جنگ بندی کے بنیادی مقصد پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ، پوتن نے امریکہ-یوکرین کی مشترکہ تجویز کو مسترد کر دیا تھا جس میں تنازعے کو مکمل اور غیر مشروط طور پر روکنے کی بات کی گئی تھی، جبکہ کریملن نے بحیرہ اسود میں جنگ بندی کو مغرب کی طرف سے کچھ پابندیاں ہٹانے سے مشروط کر دیا تھا۔